عایشہ البکریٰ‘‘ سعودی عرب کی وہ ۱۵ سالہ جوان لڑکی ہے جو شام میں جہاد النکاح کرنے کے بعد ریاض ایئر پورٹ پر پہنچی اور نامہ نگاروں سے اپنے جہاد کے سلسلے میں گفتگو کی۔
سعودی عرب کی ۱۵ سالہ لڑکی جو شام میں جہاد النکاح کا فریضہ انجام دینے کے بعد سعودی عرب واپس گئی نے قابل توجہ باتیں اگلی ہیں.
عربی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق، ’’عایشہ البکریٰ‘‘ سعودی عرب کی وہ ۱۵ سالہ جوان لڑکی ہے جو شام میں جہاد النکاح کرنے کے بعد ریاض ایئر پورٹ پر پہنچی اور نامہ نگاروں سے اپنے جہاد کے سلسلے میں گفتگو کی۔
اس نے عربی میڈیا سے گفتگو میں کہا: میں وہابی مفتی ’’محمد العریفی‘‘ کے فتوے کو سننے کے بعد جو انہوں نے شام میں جہاد النکاح کے سلسلے میں دیا ہے شام گئی اور جہاد کا فریضہ انجام دینے کے بعد اب واپس آئی ہوں۔
سعودی عرب کی اس جوان لڑکی نے مزید کہا: میں نے شام میں ایک ہزار سے زیادہ مجاہدین کے ساتھ نزدیکی کی جو زیادہ تر الجزائر، پاکستان، سومالیہ، عراق اور ایتھوپیا کے تھے۔
اس نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ وہ اب حاملہ ہے اور اسے معلوم نہیں اس کے بچے کا باپ کون ہے کہا: البتہ اس بات کا احتمال قوی ہے کہ میرے بچے کا باپ جبہۃ النصرہ کا کمانڈر ہو گا۔ اس لیے کہ وہ مجھے اپنے ساتھ اسرائیل لے کر گیا تھا اور وہاں اس نے کئی بار میرے ساتھ جماع کیا اس نے وہاں پر اسرائیلی حکام سے ملاقات کی اور ان سے اسلحہ، انفارمیشنز اور شامی فوج کی نقل و حرکت کی سیٹلائٹ کے ذریعے لی گئی تصاویر حاصل کیں۔
عائشہ نے دھشتگردوں کے جذبات کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا: میرا یہ خیال ہے کہ النصرہ، القاعدہ، اسرائیل، قطر اور دیگر ممالک کے افراد کے ذریعے تشکیل پائے ٹولے شام میں اب شکست سے دوچار ہیں۔ اس لیے کہ بہت سارے مجاہدین شامی فوج سے ہراساں ہیں اور بہت سارے بھاگ گئے ہیں۔
اس نے اپنے انٹرویوں میں اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ اس نے کئی بار دھشتگردوں کے ایسے جنازوں کو دیکھا ہے جو مختلف علاقوں کے کوڑے دانوں میں پڑے ہوئے تھے۔