مرگ یزید 

یزید بن معاویہ خلیفہ سویم کے زمانے میں پیدا ہوا۔ اس کی ماں کا نام میسون بنت بجدل کلبی تھا اور وہ شام کے کلبیہ قبیلہ کی عیسائی تھی 
یزید نے معاویہ کے بعد 60 سے 64 ہجری تک تخت سنبھالا۔ اس کے دور میں سانحۂ کربلا میں نواسہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور جگر گوشہ بتول سلام اللہ علیھا، امام حسین علیہ السلام شہید کئے گئے۔ امام حسین علیہ السلام کا سر مبارک یزید کے دربار میں لے جایا گیا تو اس نے سر دیکھ کر اشعار پڑھے کہ آج میں نے اپنے خاندان کے بدر اور احد کے مقتولین کا بدلہ لے لیا۔ روایات کے مطابق اسی نے امام حسین علیہ السلام کی شہادت کا حکم دیا اور عبداللہ ابن زیاد کو خصوصی طور پر یہ ذمہ داری دی اور جب امام حسین علیہ السلام کا سر اس کے سامنے آیا تو اس نے خوشی کا اظہار کیا اور امام کے اہل خانہ کو ایک سال قید میں رکھا۔ 
اسی کے دور میں عبد اللہ ابن حنظلہ کی تحریک کو کچلنے کے لیے مدینہ میں قتل عام ہوا اور حضرت عبد اللہ ابن زبیر کے خلاف لڑائی میں خانہ کعبہ پر سنگ باری کی گئی اور آگ برسائی گئی جس سے خانہ کعبہ نذر آتش ہو کر منہدم ہو گیا-

کتے پالنا، شطرنج کھیلنا ، زنا کرنا اور شراب پینا اس کے عام مشاغل تھے - اس نے ایک بندر بھی پالا ہوا تھا جس کو قیمتی کپڑے پہنا کر یہ ایک گدھے پر بیٹھا کر ریس (دوڑ) لگواتا تھا- ناچ گانے والی عورتوں سے رغبت اس کا خاص مشغلہ تھا- 

امام حسن علیہ السلام اور معاویہ کے درمیان صلح کی ایک بنیادی شرط یہ تھی کہ معاویہ کے بعد کوئی جانشین مقرر نہیں ہوگا مگر معاویہ نے یزید کو جانشین مقرر کیا اور اس کے لیے بیعت لینا شروع کر دی۔ کچھ اصحاب رسول رضی اللہ تعالٰی عنہم نے اس بیعت سے انکار کر دیا جیسے حضرت عبداللہ بن زبیر۔ 
امام حسین علیہ السلام نے بھی بیعت سے انکار کر دیا کیونکہ یزید کا کردار اسلامی اصولوں کے مطابق نہیں تھا۔ یزید کی تخت نشینی کے بعد اس نے امام حسین سے بیعت لینے کی تگ و دو شروع کر دی۔ یزید نے مدینہ کے گورنر کو سخت احکامات بھیجے کہ امام حسین سے بیعت لی جائے۔ امام نے مدینہ چھوڑا اور مکّہ میں تشریف لے آے
مکّہ سے امام نے حضرت مسلم بن عقیل کو کوفہ کے حالات معلوم کرنے کوفہ روانہ کیا - یزید نے جب محسوس کیا کہ کوفہ کا گورنر مسلم بن عقیل کے معاملے میں نرمی سے کام لے رہا ہے تو اس نے گورنر کو معزول کر کے ابن زیاد کو گورنر بنا کر بھیجا جو نہایت شقی القلب تھا۔ ابن زیاد نے جناب مسلم اور حضرت ہانی کو شہید کر دیا 
مورخین نےلکھا ہے کہ ابن زیاد نے یزید کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے خاندان رسالت کو قتل کیا اور قیدیوں کو اونٹوں پر شہیدوں کے سروں کے ساتھ دمشق بھیج دیا ۔ دمشق میں بھی ان کے ساتھ کچھ اچھا سلوک نہ ہوا۔ یزید نے حسین علیہ السلام کے سر کو اپنے سامنے طشت پر رکھ کر ان کے دندان مبارک کو چھڑی سے چھیڑتے ہوے اپنے کچھ اشعار پڑھے جن سے اس کا نقطۂ نظر معلوم ہوتا ہے جن کا ترجمہ کچھ یوں ہے

'کاش آج اس مجلس میں بدر میں مرنے والے میرے بزرگ اور قبیلہ خزرج کی مصیبتوں کے شاہد ہوتے تو خوشی سے اچھل پڑتے اور کہتے : شاباش اے یزید تیرا ہاتھ شل نہ ہو ، ہم نے ان کے بزرگوں کو قتل کیا اور بدر کاانتقام لے لیا ، بنی ہاشم سلطنت سے کھیل رہے تھے اور نہ آسمان سے کوئی وحی نازل ہوئي نہ کوئي فرشتہ آیا ہے- 

واقعہ حرّہ جو سن 64 ہجری میں رونما ہوا کے بعد یہ ملعون زیادہ دن زندہ نہ رہا اور واصل جہنم ہو گیا- اس کی موت کے سلسلے میں مختلف روایت ہیں -کچھ مورخین کے مطابق یہ پراسرار بیماری کا شکار ہو کے مرا- کچھ کے مطابق اس کی موت شکار کھیلتے ہوے گھوڑے سے گرنے سے ہوئی - کچھ کے مطابق اس کو جنگل میں شکار کے دوران پیاس لگی اور یہ اپنے ساتھیوں سے بچھڑ گیا اور ایک جھونپڑی تک پھنچا اور جھونپڑی کی مالکن یا مالک نے اس کو پہچان کر قتل کر دیا- اور کچھ کے نزدیک دوران شکار اس کو کسی درندے نے پھاڑ کھایا
اس کی قبر دمشق میں ایسی جگہ ہے جہاں غلاظت پھینکی جاتی ہے- 
یہ 14 ربیع الاول 64 ہجری کو اپنے انجام کو پھنچا 


تحریر :- ایڈمن بلینڈ آف ہسٹری 

حوالہ جات :- 
١- یزید تاریخ کے آئینہ میں (عمر ابو النصر قدسی)
٢- 14 ستارے (نجم الحسن کراروی) 
٣- آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا
٤- دربار یزید (سید فیض الحسن موسوی)
٥- تاریخ اسلام (مسٹر ذاکر حسین)

No comments:

Post a Comment

Post Your Comments