Found Haram Ingredient in Cadbury Dairy Milk Chocolate

کیڈبری چاکلیٹ میں حرام اجزاء کی ملاوٹ کا انکشاف


ملائیشیا میں مسلم تنظیموں نے چاکلیٹ بنانے والی کمپنی کیڈبری کی مصنوعات کے بائیکاٹ کا مطالبہ کیا ہے


۔ ملائیشیا میں کیڈبری کی دو مصنوعات میں خنزیر کی چربی کی ملاوٹ کا انکشاف ہوا ہے۔ اہلکاروں کی جانب سے غیر اعلانیہ طور پر کی گئی جانچ میں کیڈبری کی چاکلیٹ مصنوعات میں خنزیر کی چربی کے اجزا پائے گئے تھے، جس کے بعد اس کمپنی نے ملائیشیا میں بازار سے اپنی تمام چاکلیٹ مصنوعات کو واپس لے لیا تھا۔ ملائیشیا میں ایک چینی کمپنی نے بھی اپنی تمام دکانوں میں کیڈبری کی مصنوعات کی فروخت پر پابندی کا اعلان کیا ہے۔ ملائیشیا میں تاجروں کی یونین کے مشیر وزیر احمد کا کہنا ہے کہ اگر چہ کمپنی کی صرف دو مصنوعات میں حرام اجزاء کی ملاوٹ کی انکشاف ہوا ہے، تاہم دوسری مصنوعات میں بھی یہی فارمولہ اختیار کیا جاتا ہے، اس لیے ہمیں اس بات کا اندیشہ ہے کہ کیڈبری کی تمام مصنوعات میں اس طرح کی ملاوٹ کی گئی ہو گی۔ واضح رہے کہ ملائیشیا ایک مسلم اکثریتی ملک ہے، جہاں عمومی استعمال کی مصنوعات میں حرام گوشت جانوروں کے اجزا کا استعمال غیر قانونی ہے۔

SAYING OF IMAM JAFFER SADIQ AS


امام جعفــرالصادق صلوات اللہ علیہ نے فرمایا 

" جب کوئی حاجت اور ضرورت تجھے پیدا ھو جاۓ، اسکے مانگنے کے لیے صبح کا وقت اختیار کرو- کیونکہ رزق طلوع _آفتاب سے پہلے تقسیم ہوتا ھے اور اللہ تعالی اس امت کے صبح کے وقت کو بابرکت قرار دیتا ھے اور تم کو صبح کے وقت صدقہ دینا چاہیے کیونکہ ہر مصیبت پر صدقہ سبقت لے جاتا ھے "
[ امالی شیخ مفید، مجلس_6، حدیث_16 ]

RIZWAN ZAIDI MUNQABAT 2014-15

RIZWAN ZAIDI MUNQABAT 2014-15 HAS BEEN AVAILABLE FOR DOWNLOAD NOW




Ali as Ka Laal Hun  (DOWNLOAD NOW)

RIZWAN ZAIDI MUNQABAT 2014 PROMO

MARTYRDOM OF IMAM MUSA KAZIM (AS)

امام موسی کاظم (ع) بصرہ کے قید خانہ میں


’افسوس کہ امام موسیٰ کاظم ؑ کی جیسی شخصیت کا جنازہ بغداد کے پُل پر لا کر رکھ دیا گیااور تشییع کے لئے کو ئی دیندار نہ آیا



امام موسی کاظم علیہ السلام کے زمانے کی طاغوتی حکومت نے گزشتہ حکام اور دشمنان اہلبیت(ع) کی طرح آپ سے خطرہ محسوس کرتے ہوئے آپ کو بصرہ منتقل کرنے اور بصرہ کے قید خانے میں قید کرنے کا حکم دیا تو آپ ؑ کو ایک گھر میں قید کردیا گیا اور اس قید خانہ کے دروازے بند کر دئے گئے اور ان دروازوں کو صرف دو حالتوں میں کھولا جاتا تھا ایک طہارت کیلئے اور دوسرے کھانا دینے کیلئے ۔
آپ ؑ کا عبادت میں مشغول رہنا 
امام ؑ خدا وند عالم کی عبادت میں مشغول رہتے تھے دن میں روزہ رکھتے اور رات میں نمازیں پڑھتے، آپ ؑ نے قید خانہ میں کو ئی جزع و فزع نہیں کی ،آپ ؑ نے اللہ کی عبادت میں مشغول رہنا اللہ کی نعمت جانا ، آپ ؑ اس پر اللہ کا اس طرح شکر ادا کر تے تھے :’’خدایا ! تو جانتا ہے کہ میں تجھ سے یہ سوال کرتا تھاکہ مجھے اپنی عبادت کاکوموقع فراہم کر ،خدایا ! تو نے ایسا کردیالہٰذا تیرے لئے ہی حمد و ثناہے۔عیسیٰ کو امام ؑ کو قتل کرنے کے لئے روانہ کرنا ہارون سر کش نے بصرہ کے گورنر عیسیٰ کو امام ؑ کو قتل کرنے کا حکم دیا تو اس کو یہ بات بہت گراں گذری ،اس نے اپنے حوالیوں و مو الیوں کو بلاکر اس سلسلہ میں مشورہ کیا تو اُن سب نے اُس کو ایسا کرنے سے منع کیا اور اُس نے ہارون کو ایک خط لکھا جس میں یہ تحریر کیا کہ مجھے ایسا کرنے سے معاف کیجئے جس کا مضمون کچھ یوں ہے :موسیٰ بن جعفر ایک طولانی مد ت سے میرے قید خانہ میں ہیں اور میں تجھ کو اُن کے حالات سے آگاہ کرتا رہا ہوں ،اور میری آنکھوں نے اس طویل مدت میں امام ؑ کو عبادت کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں دیکھا ،اور جو کچھ امام ؑ اپنی دعا میں کہتے تھے وہ بھی سنا ہے، انھوں نے کبھی بھی میرے اور تیرےخلاف کو ئی بات نہیں کہی ہے اور نہ ہی کبھی برا ئی کے ساتھ یاد کیا ہے ،وہ ہمیشہ اپنے نفس کیلئے مغفرت و ر حمت کی دعا کر تے تھے آپ جس کو چا ہیں میں ان کو اس کے حوالے کردوں یا ان کو چھوڑ دوں میں ان کو قید کرنے سے پریشان ہو گیا ہوں۔امام ؑ کو فضل کے قید خانہ میں بھیجنا ہارون رشید نے عیسیٰ کو بلاکر کہا کہ امام ؑ کو بغداد میں فضل بن ربیع کے قید خانہ میں منتقل کر دیا جائے جب امام وہاں پہنچے تو اُس نے آپ ؑ کو اپنے گھر میں قید کردیاامام ؑ عبادت میں مشغول ہوگئے آپ ؑ دن میں روزہ رکھتے اور رات میں نمازیں پڑھتے تھے ،فضل امام ؑ کی عبادت کو دیکھ کر مبہوت ہو کر رہ گیا ،وہ اپنے اصحاب سے امام ؑ کے ذریعہ اللہ کی عظیم اطاعت کے بارے میں باتیں کر تا ،عبد اللہ قزوینی (جو شیعہ تھے ) سے روایت ہے : ابن ربیع فضل کے پاس پہنچا تو وہ اپنے گھر کی چھت پر بیٹھا ہوا تھا ، اُس نے مجھ سے کہا :میرے قریب آؤ میں اُس کے ایک دم قریب ہو گیا تو اُس نے مجھ سے کہا : گھر میں دیکھو ۔
جب عبد اللہ نے گھر میں دیکھا تو اس سے فضل نے کہا :تم گھر کے اندر کیا دیکھ رہے ہو ؟میں نے کہا :میں ایک لپٹا ہوا کپڑا پڑا ہوا دیکھ رہا ہوں صحیح طریقہ سے دیکھو ۔تو میں نے ایک شخص کو سجدہ کرتے ہوئے دیکھا ۔کیا تم اس کو پہچانتے ہو ؟نہیں ۔
یہ تمہارے مو لا و آقا ہیں ۔میرے مو لا کون؟تم میرے سامنے لا علمی کا اظہار کیوں کر رہے ہو !میں لا علمی کا اظہار نہیں کر رہاہوں لیکن میں نہیں جانتا کہ میرے مولا کون ہیں ؟یہ ابو الحسن مو سیٰ بن جعفر ؑ ہیں ۔پھر فضل عبد اللہ سے امام ؑ کی عبادت کے متعلق یوں بیان کر نے لگا :میں نے رات دن میں کوئی ایسا وقت نہیں دیکھا ،میں نے امام کو اُس حالت میں نہ دیکھا ہوجس کی میں نے تمہیں خبر دی ہے ، امام ؑ صبح تک نمازیں پڑھتے رہتے ہیں ،نماز کے بعد آفتاب کے طلوع ہونے تک دعائیں پڑھتے ہیں ،اس کے بعد زوال آفتاب تک سجدہ میں رہتے ہیں زوال کے وقت کو ئی اُن کو آکر بتا تا ہے مجھے نہیں معلوم کہ کب غلام اُن کو آکر کہتا ہے :زوال کا وقت ہو گیا ہے ،جب وہ سجدہ سے اٹھتے ہیں تو تجدید وضو کے بغیرپھر نماز پڑھنے لگتے ہیں ۔۔۔اور میں جانتا ہوں کہ وہ سجدوں میں ہرگز نہیں سوتے ،نہ ہی آپ ؑ پر غفلت طاری ہو تی ہے اور نماز عصر تک آپ ؑ اسی طرح رہتے ہیں اور جب عصر کی نماز سے فارغ ہوجاتے ہیں تو اس کے بعد آپ ؑ سجدہ کرتے ہیں اور سورج کے غروب ہونے تک سجدہ کی حالت میں رہتے ہیں ،جب سورج غروب ہوجاتا ہے توآپ سجدہ سے اٹھتے ہیں اور کسی حدث کے صادر ہوئے بغیر نماز مغرب بجالاتے ہیں آپ ہمیشہ نمازعشاء تک نمازاور تعقیباتِ نماز پڑھتے تھے ،اس کے بعد نماز عشاء بجالاتے اور نماز عشا پڑھنے کے بعد آپ ؑ کچھ تناول فرماتے ، اس کے بعد تجدید وضو کرتے پھر سجدہ میں چلے جاتے اس کے بعد سجدہ سے سر اٹھاتے تو کچھ دیر کیلئے سوجاتے ،اس کے بعد اٹھ کر تجدید وضو کرتے اور طلوع فجر تک نماز پڑھتے اس کے بعد نماز صبح بجالاتے تھے ۔جب سے میرے پاس ہیں اُن کا یہی طریقہ ہے ۔
جب عبد اللہ نے فضل کو امام کا یہ اکرام و تکریم کر تے دیکھا تو اس کو امام ؑ کی شان میں کو ئی گستاخی نہ کر نے کی یوں تاکید کر نے لگا :اللہ کا تقویٰ اختیار کر،اور اس سلسلہ میں کو ئی ایسا کام نہ کرنا جس سے تیری نعمت زا ئل ہو جائے ،اور جان لے ! کسی نے کسی کیلئے کو ئی برا ئی نہیں کی مگر یہ کہ اس کی نعمت زا ئل ہو گئی ۔فضل نے کہا : مجھے کئی مرتبہ آپ ؑ کو قتل کر نے کا حکم دیا گیا لیکن میں نے قبول نہیں کیا ،اور تم جانتے ہو کہ میں کبھی ایسا نہیں کروں گا ۔اگر مجھے قتل بھی کر دیا جائے تو بھی جو انھوں نے مجھ سے کہا وہ انجام نہیں دوں گا ۔ امام ؑ کا ملول و رنجیدہ ہونا امام ؑ قید خانہ میں ایک طویل مدت تک رہنے کی وجہ سے ملو ل و رنجیدہ ہو گئے ،اور آپ ؑ نے خدا سے ہارون کے قید خانہ سے نجات عطا کر نے کی التجا کی ،آپ ؑ نے رات کی تاریکی میں چار رکعت نماز ادا کی اور خدا سے یہ دعا کی :’’اے میرے سید و آقا !مجھے ہارون کے قید خانہ سے نجات دے ،اس کے قبضہ سے مجھے چھٹکارا دے ،اے ریت اور مٹی سے درخت کو اُگانے والے ، اے لوہے اور پتھر سے آگ نکالنے والے ، اے گوبر اور خون سے دودھ پیدا کر نے والے ،اے مشیمہ(رحم میں بچہ کی جھلی) اور رحم سے بچہ پیدا کرنے والے ،اے احشاء اور امعاء سے روح کو نکالنے والے مجھے ہارون کے ہاتھ سے نجات دلادے ۔اللہ نے اپنے ولی کی دعا کو مستجاب کرلیااور آپ ؑ کو باغی ہارون کے قید خانہ سے اس خواب کے ذریعہ رہائی دلا ئی جو اس نے دیکھا تھا۔
امام ؑ کو فضل بن یحییٰ کے قید خانہ میں بھیجنا 
ہارون نے امام ؑ کو دوسری مرتبہ گرفتار کرکے فضل بن یحییٰ کے قید خانہ میں ڈال دیا،فضل نے امام ؑ کی بہت ہی خاطر و مدارات کی جس کا آپ ؑ نے بقیہ دوسرے قید خانوں میں مشاہدہ نہیں کیا تھا ، ہارون کے ایک جاسوس نے فضل کے ذریعہ امام کی خاطر و مدارات کی خبر ہارون کو دی، جس کو سُن کر ہارون طیش میں آگیا، اس نے فضل کو وہاں سے ہٹا کر سو تازیانے لگانے کی خاطر ایک سپاہی روانہ کیا اور جس وقت وہ تازیانے لگانے لگا اس وقت ہارون رشید ،اپنے محل میں تھا وہیں پر وزراء ،لشکر کے سرداراور لوگوں کا ہجوم اکٹھا تھا ،رشید نے بلند آواز میں کہا :لوگو ! فضل بن یحییٰ نے میری اور میرے امر کی مخالفت کی ہے لہٰذا میں اس کو لعنت کا مستحق سمجھتا ہوں اس لئے تم سب اُس پر لعنت کرو ۔چاروں طرف سے مجمع سے فضل پر لعنت و سب و شتم کی آوازیں بلند ہو نے لگیں ،وہاں پر یحییٰ بن خالد بھی مو جود تھا جو جلدی سے رشید کے پاس پہنچا اور اُس نے یہ کہکر اس کو خوش کیا :اے امیر المو منین فضل سے ایک چیز صادر ہو گئی ہے اور اُس کے لئے تو میں ہی کا فی ہوں ۔
 ہارون رشید خوش ہو گیا، اس کا غصہ دور ہو گیا اور اُس نے یہ کہکر اپنی خو شی کا اظہار کیا : فضل نے ایک امر میں میری مخالفت کی تو میں نے اس پر لعنت کر دی ہے اور اس نے تو بہ کرلی تو ہم نے بھی اس کی توبہ قبول کر لی ہے لہٰذا تم سب جاؤ۔ہر طرف سے یہ آواز بلند ہو نے لگی وہ لوگ ہارون کی اس متضاد اور دوہری سیاست کی اطاعت اور تا ئید کر رہے تھے اور کہہ رہے تھے :اے امیر المو منین!،ہم اس سے محبت کر تے ہیں جس سے آپ محبت کرتے ہیں اور اس کے دشمن ہیں جس کے آپ دشمن ہیں اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں ۔امام ؑ ،سندی کے قید خانہ میںرشید نے امام ؑ کو فضل بن یحییٰ کے قید خانہ سے سندی بن شاہک کے قید خانہ میں منتقل کرنے کا حکم دیا ،وہ مجوسی اور بہت خبیث جلّاد تھا ،نہ اللہ پر ایمان رکھتا تھا اور نہ ہی روز قیامت کو مانتا تھا ،اس نے امام ؑ پر بے انتہا سختی کی یہاں تک کہ امام ؑ کوزہر دیدیا ،جو آپ ؑ کے پورے بدن میں سرایت کر گیا ، امام ؑ دردو الم سے کراہنے لگے یہاں تک آپ ؑ نے داعی اجل کو لبیک کہہ دیا ،آپ ؑ کی شہادت سے دنیا میں اندھیرا چھا گیا ، آخرت آپ ؑ کے نور سے منور ہو گئی ،خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ امام ؑ پر زمانہ کے اُس سر کش ہارون کی طرف سے مصائب و آلام کے کیا کیا پہاڑ ٹوٹے، ہارون خاندان نبوت سے بہت زیادہ کینہ وحسد رکھتا تھا اور اُن کا دشمن تھا ۔
امام ؑ کی شہادت کے بعد سرکاری انتظامیہ ہارون کو امام ؑ کے قتل سے برئ الذمہ قرار دینے کیلئے آپ ؑ کی شہادت کے اسباب کے سلسلہ میں تفتیش کر نے لگی، عمرو بن واقد سے روایت ہے کہ رات کا کچھ حصہ گذرنے کے بعد سندی بن شاہک کا میرے پاس خط پہنچااس وقت میں بغداد میں تھا، میں نے خیال کیا کہ کہیں یہ میرے ساتھ کو ئی برا قصد تو نہیں رکھتا ہے ،میں نے اپنے اہل و عیال کو یہ سب دیکھ کر وصیت کی اور کہا : اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ،پھر میں سوار ہوکر اس کے پاس پہنچا ، جب اُس نے مجھے دیکھا تو مجھ سے کہنے لگا :اے ابو حفص شاید آپ ہم سے گھبرا گئے ہیں ؟ ہاں ۔ گھبراؤ نہیں ،خیر کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے ۔میرے اہل و عیال کے پاس ایک قاصد بھیج دے تاکہ وہ جا کر انھیں بتا ئے کہ کو ئی بات نہیں ہے ۔
ہاں ۔جب وہ مطمئن ہوگیا تو سندی نے اُس سے کہا : اے ابو حفص! کیا تم جانتے ہو کہ میں نے تمھیں یہاں کیوں بلا بھیجا ہے ؟نہیں ۔کیا تم مو سیٰ بن جعفر کو جانتے ہو ؟ہاں میں انھیں پہچانتا ہوں اور کچھ زمانہ سے میری اور اُن کی دو ستی ہے ۔کیا بغداد میں کوئی یہ قبول کر لے گا کہ تم اتھیں جا نتے ہو ؟ہاں ۔پھر اُس نے اُن لوگوں کے نام بتائے جو امام کو جانتے تھے ،سندی نے ان سب کو بلابھیجا جب وہ آگئے تو اس نے اُن سے کہا :کیا تم کسی ایسی قوم کو جانتے ہو جو مو سیٰ بن جعفر کو پہچا نتی ہے ؟تو انھوں نے اُس قوم کے نام بتائے جو امام مو سیٰ بن جعفر ؑ کو پہچا نتی تھی تو اُس قوم کو بھی بلایا گیا یہاں تک کہ پوری رات گذر گئی اور نور کا تڑکا ظاہر ہوا تواس کے پاس پچاس سے زیادہ شاہد جمع ہوچکے تھے اُس نے منشی سے اُن سب کے نام، پتے، کام اور خصوصیات لکھوائے ،پھر وہ وہاں سے نکلا کچھ افراداُ س کے ساتھ ساتھ تھے تو اس نے عمرو بن واقد سے کہا :اے ابو حفص کھڑے ہوجاؤ اور مو سیٰ بن جعفر ؑ کے چہرے سے کپڑا ہٹاؤ ۔عمرو نے کھڑے ہوکر آپ ؑ کے چہرۂ اقدس سے کپڑا ہٹایا تو دیکھا کہ آپ ؑ کی روح پرواز کرگئی ہے، اس وقت سند ی نے اس جماعت سے مخاطب ہو کر کہا : اِن کی طرف دیکھو ،وہ اُن کے قریب ہوا اور اُن سے کہا :تم گواہ رہنا کہ یہ موسیٰ بن جعفر ہیں ؟ان لوگوں نے کہا :ہاں ۔پھر اس نے اپنے غلام کو امام ؑ کے جسم سے لباس اُتارنے کا حکم دیا ،غلام نے ایسا ہی کیا،پھر اُس نے قوم سے مخاطب ہو کر کہا :کیا تم ان کے جسم پر کو ئی ضرب کا نشان دیکھ رہے ہو ؟نہیں ۔پھر اُن کی گو ا ہی لکھی اور وہ سب پلٹ گئے ،اس کے بعد اس نے فقہا اور بڑی بڑی شخصیتوں کو بلاکر امام مو سیٰ بن جعفر ؑ کے قتل سے ہارون کے برئ الذمہ ہونے کی گو اہی دلوا ئی ۔امام ؑ کی نعش مبارک بغداد کے پُل پرامام ؑ کی نعش مبارک بغداد کے پُل پر رکھ دی گئی تاکہ دور و نزدیک والے سب دیکھ لیں جب گزرنے والوں کی بھیڑہٹی توامام ؑ کا روئے مبارک ظا ہر ہوا ،ایسا کرنے سے حکومت کا مقصد امام ؑ کی اہانت اورشیعوں کو ذلیل و رسوا کر نا تھا ،بعض شاعر کہتے ہیں :
مِثْلُ مُوْسیٰ یُرْمیٰ عَلیٰ الجِسْرِمَیْتاً لَمْ یُشَیِّعْہُ لِلْقُبُوْرِمُوَحِّدُ !حَمَلُوْہُ وَلِلْحَدِیْدِ بِرِجْلَیْہِ ھَزِیْجُ لَہُ الْاَھَاضِیْبُ تَنْھَدْ’’افسوس کہ امام موسیٰ کاظم ؑ کی جیسی شخصیت کا جنازہ بغداد کے پُل پر لا کر رکھ دیا گیااور تشییع کے لئے کو ئی دیندار نہ آیا ۔آپ ؑ کا جنازہ اس عالم میں اٹھایا گیا کہ آپ ؑ کے پیروں میں لوہے کی بیڑیاں پڑی تھیں ‘‘۔ہارون رشید کی تمام کو ششیں خاک میں مل کر رہ گئیں امام ؑ ہمیشہ کیلئے زندۂ جا وید ہیں امام ؑ کا مرقد مطہرکو اللہ کے صالح و نیک بندوں میں ایک با عزت مقام حاصل ہے جس سے اللہ کی رحمت کی خوشبوئیں چاروں طرف پھوٹ رہی ہیں ،مسلمان امام ؑ کی زیارت کیلئے آتے ہیں اور ہارون کا نہ کو ئی نام و نشان ہے اور نہ ہی کوئی اس کو یاد کرنے والا ہے ،نہ اس کی کو ئی ضریح ہے جس پر کو ئی جائے ،وہ اپنے خاندان کے ساتھ ابدی اندھیروں میں مدفون ہو گیا ،عنقریب خداوند عالم اُ س کا مشکل حساب لے گا جس جس ظلم و جور کا وہ مر تکب ہوا ہے ۔حکومت نے اتنے ہی پر اکتفا نہیں کی بلکہ اس سے بڑھ کر ضلالت کایہ ثبوت دیا کہ وہ بغداد کی سڑکوں پر نکل کر یہ اعلان کر یں :یہ مو سیٰ بن جعفر ؑ ہیں جن کے بارے میں شیعہ یہ گمان کرتے ہیں کہ اِن کوموت نہیں آئے گی دیکھو یہ مر گئے ہیں ۔اسی طرح انھوں نے یہ کہنے کے بجائے :یہ طیب ابن طیب کے فرزند ہیں دوسرے کلمات کہے ، سلیمان بن ابو جعفر منصور نے امام کی تجہیز کی اس کے دوستوں نے امام ؑ کی نعش مبارک سرکاری مزدوروں کے ہاتھوں سے لی اور یہ اعلان کیا :آگاہ ہوجاؤجو طیب ابن طیب مو سیٰ بن جعفر ؑ کے جنازے میں شریک ہونا چاہتا ہے وہ حاضر ہو جائے ۔مختلف طبقوں کے لوگ امام ؑ کے جنازے میں شریک ہو نے کے لئے نکل پڑے ،لوگوں نے ننگے پیر آپ کی تشییع جنازہ کی جس کی بغداد میں کو ئی نظیر نہیں ملتی ہے ،سڑکوں پر بہت زیادہ بھیڑ تھی اور سب بہت زیادہ رنج و غم میں غرق تھے ،سلیمان اور اس کے افراد جنازے میں پیش پیش تھے جنازہ کو قریش کی قبروں کے پاس لایا گیا وہیں پر قبر کھودی گئی سلیمان قبر میں اُترے اور آپ ؑ کے جنازہ کو آپ ؑ کی ابدی آرام گاہ میں رکھا اور حلم علم ،کرامت اور بلند اخلاق کو زمین کے اندر چھپادیا ،سلام ہو اُن پر جس دن وہ پیدا ہوئے ،شہید ہوئے اور جس دن مبعوث کئے جا ئیں گے ۔

ماخوذ از: کتاب ائمہ اطہار (ع) کی سیرت سے، ناشر مجمع جہانی اہلبیت(ع)

ALI SAFDAR MUNQABAT 2014

COMPLETE ALBUM HAS BEEN AVAILABLE NOW


ALI SAFDAR MUNQABAT 2014


Ali Imame Manastu Manam


Imam E Raza (A.S)


Karbala Naseeb Sey Jana



Ya Imam e Zamana (A.S)



Ali (a.s) Ke Chahane Waale Khushi Aisay



Jafer e Tayyar Do



Naam e Ali Ki Chahi Dhoop



Quran



Shadi Mubarak Ho Ye Shadi





حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی جاوداں شخصیت کے تاریخی پہلو

تاریخ کربلا اور تحریک زینب (ع) میں ایک نیا باب کھلتا ہے زینب اس قافلے کی قافلہ سالار اور بزرگ ہیں کہ جسکے قافلہ سالار امام حسین علیہ السلام تھے جس کے حامی عباس ،(ع)علی اکبر (ع) ۔۔۔ بنی ھاشم اور امام حسین (ع) کے باوفا اصحاب تھے ، وہ غیور مرد جن پر اہل بیت (ع) حرم اور بچوں کو ناز تھا جن کے وجود سے اہل بیت (ع) کو سکون تھا ۔




دين اسلام کي پاکيزہ تعليمات کی تحفظ وپاسداري

جناب زینب نے اپنی زندگی کے مختلف مرحلوں میں اسلامی معاشرہ میں رونما ہونے والے طرح طرح کے تغیرات بہت قریب سے دیکھے تھے خاص طور پر دیکھ کر کہ امویوں نے کس طرح دور جاہلیت کی قومی عصبیت اور نسلی افتخارات کو رواج دے رکھاہے اور علی الاعلان اسلامی احکامات کو پامال کررہے ہیں، علی و فاطمہ کی بیٹی اپنے بھائی حسین کے ساتھ اسلامی اصولوں کی برتری کے لئے ہر قربانی دینے کو تیار ہوگئی ظاہر ہے جناب زینب، بھائی کی محبت سے قطع نظر اسلامی اقدار کی حفاظت اور اموی انحراف سے اسلام کی نجات کے لئے امام حسین علیہ السلام سے ساتھ ہوئی تھیں کیونکہ آپ کاپورا وجود عشق حق اور عشق اسلام سے سرشار تھا ۔



علم و تقويٰ

کائنات کي سب سے محکم و مقدس شخصيتوں کے درميان پرورش پانے والي خاتون کتني محکم و مقدس ھوگي اس کا علم و تقويٰ کتنا بلندو بالا ھوگا۔ جب آپ مدينہ سے کوفہ تشريف لائيں تو کوفہ کي عورتوں نے اپنے اپنے شوہروں سے کہا کہ تم علي سے درخواست کرو کہ آپ مردوں کي تعليم و تربيت کے لئے کافي ہیں ، ليکن ہماري عو رتوں نے يہ خواہش ظاہر کي ہے کہ اگر ہو سکے تو آپ اپني بيٹي زينب سے کہہ ديں کہ ہم لوگ جاہل نہ رہ سکيں ۔
ايک روز کوفہ کي اہل ايمان خواتين رسول زادي کي خدمت ميں جمع ہو گئيں ۔اور ان سے درخواست کي کہ انھيں معارفت اللہ سے مستفيض فرمائيں ۔ زينب نے مستورات کوفہ کے لئے درس تفسير قرآن شروع کيا اور چند دنوں ميں ہی خواتين کي کثير تعداد علوم اللہ سے فيضياب ہونے لگي ۔ آپ روز بہ روز قرآن مجيد کي تفسير بيان کر تي تھيں ۔ 
تاریخ آپ کو " ثانی زہرا" اور " عقیلۂ بنی ہاشم " جیسے ناموں سے بھی یاد کرتی ھے ۔
کوفہ ميں آپ کے علم کا چرچہ روز بروز ہر مردو زن کي زبان پر تھااور ہر گھر ميں آپ کے علم کي تعريفيں ہو رھی تھيں اور لوگ علي(ع) کي خدمت ميں حاضر ہو کر آپ کي بيٹي کے علم کي تعريفيں کيا کرتے تھے يہ اس کي بيٹي کي تعريفيں ہو رھی ھیں جس کا باپ "راسخون في العلم " جس کا باپ باب شہر علم ھے جس کا باپ استاد ملائکہ ھے ۔ 



جذبہ جہاد اور سرفروشی

حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے واقعہ کربلا میں اپنی بے مثال شرکت کے ذریعے تاریخ بشریت میں حق کی سربلندی کے لڑے جانے والی سب سے عظیم جنگ اور جہاد و سرفروشی کے سب سے بڑے معرکہ کربلا کے انقلاب کو رہتی دنیا کے لئےجاوداں بنادیا ۔ جناب زینب سلام اللہ کی قربانی کا بڑا حصہ میدان کربلا میں نواسۂ رسول امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد اہلبیت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اسیری اور کوفہ و شام کے بازاروں اور درباروں میں تشہیر سے تعلق رکھتاہے 



فصاحت و بلاغت اور نظم و تدبیر

اس دوران جناب زینب کبری کی شخصیت کے کچھ اہم اور ممتاز پہلو، حسین ترین شکل میں جلوہ گر ہوئے ہیں ۔ خدا کے فیصلے پر ہر طرح راضی و خوشنود رہنا اور اسلامی احکام کے سامنے سخت ترین حالات میں سر تسلیم و رضا خم رکھنا علی کی بیٹی کا سب سے بڑا امتیازہے صبر، شجاعت، فصاحت و بلاغت اور نظم و تدبیر کے اوصاف سے صحیح اور پر وقار انداز میں استفادہ نے آپ کو عظیم انسانی ذمہ داریوں کی ادائگی میں بھرپور کامیابی عطا کی ہے ۔



سالارٍ حقانیت

جناب زینب نے اپنے وقت کے ظالم و سفاک ترین افراد کے سامنے پوری دلیری کے ساتھ اسیری کی پروا کئے بغیر مظلوموں کے حقوق کا دفاع کیاہے اور اسلام و قرآن کی حقانیت کا پرچم بلند کیا۔ جن لوگوں نے نواسہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ایک ویران و غیر آباد صحرا میں قتل کرکے، حقائق کو پلٹنے اور اپنے حق میں الٹا کر کے پیش کرنے کی جرات کی تھی سردربار ان بہیمانہ جرائم کو برملا کرکے کوفہ و شام کے بے حس عوام کی آنکھوں پر پڑے ہوئے غفلت و بے شرمی کے پردے چاک کئے ہیں ۔



انقلابی تدبر

باوجود اس کے کہ بظاہر تمام حالات بنی امیہ اور ان کے حکمراں یزید فاسق و فاجر کے حق میں تھے جناب زینب نے اپنے خطبوں کے ذریعے اموی حکام کی ظالمانہ ماہیت برملا کر کے ابتدائی مراحل میں ہی نواسۂ رسول کے قاتلوں کی مہم کو ناکام و نامراد کردیا۔

بے مثال عالمہ اور صبرو استقامت کا کوہ گراں

امام زين العابدين عليہ السلام فرماتے ہيں کہ بحمد اللہ ميري پھوپھی (زينب سلام عليہا) عالمہ غيرمعلمہ ہيں اور ايسي دانا کہ آپ کو کسي نے پڑھايا نہیں ھیں.
زينب سلام عليہا کي حشمت و عظمت کے لئے یہی کافي تھا کہ انہيں خالق کایئنات نے علم ودانش سے سرفراز فرمايا تھا ۔
جناب زينب ان تمام صفات کے ساتھ ساتھ فصاحت و بلاغت کي عظيم دولت و نعمت سے بھي بہر مند تھي زينب بنت علي تاريخ اسلام کے مثبت اور انقلاب آفريں کردار کا دوسرا نام ھے ۔
زينب نے اپنے عظيم کردار سے آمريت کو بے نقاب کيا ظلم و استبداد کي قلعي کھول دي اور فانی دنيا پر قربان ہونے والوں کو آخرت کي ابديت نواز حقيقت کا پاکيزہ چہرہ ديکھا يا ، صبرو استقامت کا کوہ گراں بنکر علي عليہ السلام کي بيٹي نے ايسا کردار پيش کيا جس سے ارباب ظلم و جود کو شرمندگي اور ندامت کے سوا کچھ نہ مل سکا ۔
جناب زينب کو علي و فاطمہ عليہما السلام کے معصوم کردار ورثے ميں ملے اما م حسن عليہ السلام کا حسن وتدبير جہاں زينب کے احساس عظمت کي بنياد بنا وہاں امام حسين عليہ السلام کا عزم واستقلال علي عليہ السلام کي بيٹي کے صبر و استقامت کي روح بن گيا ، تاريخ اسلام ميں زينب نے ايک منفرد مقام پايا اور ايساعظيم کارنامہ سرانجام ديا جو رہتي دنياتک دنيائے انسانيت کے لئے مشعل راہ واسوہ حسنہ بن گيا۔



میدان کربلا میں ایک صحیفہ وفا
عابد نے ایسے طوقٍ گراں بار کاٹ دی 
سائے نے جیسے دھوپ کی دیوار کاٹ دی
دیکھا بوقت عصر یہ سورج نے معجزہ
پیاسے گلے نے شمر کی تلوار کاٹ دی 
(صفدر ھمدانی) 
زينب بنت علي(ع)تاريخ اسلام ميں اپني ایک مخصوص انفراديت ھے اور واقعہ کربلا ميں آپ کے صبر شجاعانہ جہاد نے امام حسين عليہ السلام کے مقدس مشن کی تکميل کو يقيني بنايا ۔ آپ نے دين اسلام کي پاکيزہ تعليمات کا تحفظ وپاسداري ميں اپناکردار اس طرح ادا کيا کہ جيسے ابوطالب(ع)رسول اللہ (ص)کي پرورش ميں اپنے بھتيجے کے تحفظ کے لئے اپني اولاد کو نچھا ور کرنا پسند کرتے تھے کيونکہ ان ک اایک مقصد تھا کہ محمد بچ جائے وارث اسلام بچ جائے بالکل اسي طرح زينب کاحال یہ کہ اسلام بچ جائے دين بچ جائے چاھے کوئي بھي قرباني ديني پڑے ۔



تاریخ کربلا اور تحریک زینب
آوازہ یا حسین کا پھر نینوا میں ھے
شبیر تیرے خون کی خوشبو ھوا میں ھے
چہلم کی شان سے ھے پریشان یزیدٍ وقت
زینب تری دعا کا اثر کربلا میں ھے 
(صفدر ھمدانی) 
تاریخ کربلا اور تحریک زینب (ع) میں ایک نیا باب کھلتا ہے زینب اس قافلے کی قافلہ سالار اور بزرگ ہیں کہ جسکے قافلہ سالار امام حسین علیہ السلام تھے جس کے حامی عباس ،(ع)علی اکبر (ع) ۔۔۔ بنی ھاشم اور امام حسین (ع) کے باوفا اصحاب تھے ، وہ غیور مرد جن پر اہل بیت (ع) حرم اور بچوں کو ناز تھا جن کے وجود سے اہل بیت (ع) کو سکون تھا ۔
ایسی حمایت و نگہبانی تھی کہ سید شہدا (ع) کی حیات کے آخری لمحات تک دشمن خیموں کے پاس تک نہ بھٹک سکا ، جنگ کے دوران ابو عبداللہ الحسین (ع) کی، لاحول ولا قوۃ الا بااللہ کی آوازسے ان کی ڈھارس بندھی ہوئي تھی حسین (ع) اس طرح انھیں تسلی دے رہے تھے ۔ 
بہترین عزیزوں کی شہادت پر امام زین العابدین (ع) کے بعد اس قافلہ کی بزرگ خاندان پیغمبر (ص) سے ایک خاتون ہے کہ جس کے عزم و استقلا ل کے سامنے پہاڑ پشیمان، جس کے صبر پر ملائکہ محو حیرت ہیں، یہ علی (ع) کی بیٹی ہے، فاطمہ (س) کی لخت جگر ہے ۔ بنی امیہ کے ظلم کے قصروں کی بنیاد ہلانے والی ہے ، ان کو پشیمان و سرنگوں کرنے والی ہے جناب ذینب تھیں ۔
یہ وہی سیدہ زینب (س) ہے جو اپنے امام (ع) کے حکم سے اولاد فاطمہ (س) کے قافلہ کی سرپرستی کرتی ہیں ، بڑی مصیبتیں اٹھانے کے بعد امام حسین (ع) اور ان کے فداکار اصحاب کے خونی پیغام کو لوگوں تک پہنچاتی ہیں ۔



سوئے کوفہ

زینب یزیدیت پہ مسافر کاایک وار
رمزِ حسین اسوہ ء زینب سے آشکار
زینب ہے کربلا کے شہیدوں کی یادگار
زینب کے دَم سے آج یہ مجلس ہے برقرار
ہر اک دیار میں ہے جو ماتم یتیم کا
صدقہ علی کی بیٹی کے عزمِ صمیم کا
(صفدر ھمدانی) 



’باب صغیر‘ میں کئی صحابی اور اہلبیت مدفون ہیں

گیارہ محرم سن 61ہجری کو اہل بیت (ع) کے اسیروں کاقافلہ کربلا سے کوفہ کی طرف روانہ ہوا ، اھل بیت (ع) کے امور کی باگ دوڑ امام زین العابدین (ع) کے ہاتھ میں ہے کیونکہ آپ امام ہیں اور آنحضرت کی اطاعت کرنا سب پر واجب ہے، قافلہ سالار زینب کبری (س) ہیں ، جو امام زین العابدین (ع) کی قریب ترین ہیں اور خواتین میں سب سے بزرگ ہیں ۔
راہ حق و حقیقت میں کربلا کی فرض شناس خواتین نے امام عالی مقام (ع) کی بہن حضرت زینب کبری (ع) کی قیادت میں ایمان و اخلاص کا مظاہرہ کرتے ہوئے صبر و تحمل اور شجاعت و استقامت کے وہ جوہر پیش کئے ہیں ۔ جس کی مثال تاریخ اسلام بلکہ تاریخ بشریت میں بھی ملنانا ممکن ہے ۔
کربلا کی شہادت و اسیری کے دوران خواتین نے اپنی وفاداری اور ایثار و قربانی کے ذریعہ اسلامی تحریک میں وہ رنگ بھرے ہیں کہ جن کی اہمیت کا اندازہ لگانا بھی دشوار ہے ۔ وہ خود پورے وقار و جلال کے ساتھ قتل و اسیری کی تمام منزلوں سے گزر گئیں اور شکوے کاایک لفظ بھی زبان پر نہ آيا۔ نصرت اسلام کی راہ میں پہاڑ کی مانند ثابت قدم رہیں اور اپنے عزم و ہمت کے تحت کوفہ و شام کے بازاروں اور درباروں میں حسینیت کی فتح کے پرچم لہرادئے حضرت زينب (س) اور ان کی ہم قدم و ہم آواز ام کلثوم (ع) ، رقیہ ( ع) ، رباب (ع) ، لیلا (ع) ، ام فروہ (ع) سکینہ (ع) ، فاطمہ (ع) اور عاتکہ (ع) نیز امام (ع) کے اصحاب و انصار کی صاحب ایثار خواتین نے شجاعت اور ایثار و قربانی کے وہ لازوال نقوش ثبت کیں۔ 
کیسے لہو میں بھر دیا احساس نے حسین 
دشت بلا میں رو کے کہا پیاس نے 
سینے پہ کربلا کے ھے مہرٍ وفا یوں ثبت
بازو کٹا کے لیکھ دیا عباس نے حسین 
(صفدر ھمدانی) 
ظاہر ہے کہ ان خواتین اور بچوں کو سنبھالنا آسان کام نہیں ہے کہ جنہوں نے عاشور کے دن رنج و مشقت اور غم برداشت کۓ تھے ، دل خراش واقعات اپنی آنکھوں سے دیکھے تھے اپنے عزیزوں کے داغ اٹھاۓ تھے اور اب وہ بے رحم دشمنوں کے محاصرہ میں ہیں اونٹ کی ننگی پیٹھ پر سوار کافر قیدیوں کی طرح لے جایا جارہا ہے ۔
خواتین کے احساس و جذبات کا بھی خیال رکھنا ہے اور صورت حال میں امام زین العابدین (ع) کی جان کی حفاظت بھی کرنا ہے جوکہ قافلہ میں زینب کی سب سے بڑی اور اہم ذمہ داری ہے پیغام کابار آپ پر زیادہ ہے ، لیکن زینب کے حوصلہ میں حد سے زیادہ استقامت اورمقاومت ہے کہ وہ بڑی مشکلوں اور مصائب کے وحشتناک طوفانوں سے ہر گز نہ گھبرائیں اور مقصد امام حسین (ع) کو زندہ جاوید بنانے میں حضرت زینب نے تاریخ کا بے مثال نمونہ پیش کیا ہے ۔



سوئے شام

گھر لٹ گیا ماں جائے کا ناشاد ھے ذینب
سر نیزے پہ شبیر کا فریاد ھے ذینب
منزل تھی کڑی شام کے بازار کی بیشک
ھم سارے مسافر ھیں ھمیں یاد ھے ذینب
(صفدر ھمدانی) 

اسیروں کے قافلہ کو چند روز ابن زیاد کی بامشقت قید میں رکھ کر شام کو روانہ کی

جس زمانہ سے شام مسلمانوں کے ہاتھوں فتح ہوا تھا اس وقت ہی سے وہاں خالد بن ولید اور معاویہ ابن ابی سفیان جیسے لوگ حاکم رہے ، اس علاقہ کے لوگوں کونہ پیغمبر (ص) کی صحبت میسر ہوئي اور نہ وہ آپ کے اصحاب کی روش سے واقف ہوسکے ،رسول چندصحابی جواس سرزمین پر جاکر آباد ہوگۓ تھے یہ پراگندگی کی زندگی بسر کرتے تھے عوام میں ان کا کوئي اثر و رسوخ نہیں تھا ، نتیجہ میں وہاں کے مسلمان معاویہ ابن ابی سفیان کے کردار اور اس کے طرز زندگی ہی کو سنت اسلام سمجھتے تھے ۔
اسیروں کے قافلہ کے داخلہ کے وقت ایسے ہی لوگوں نے شہر شام کو جشن و سرور سے معمور کررکھا تھا ، یزید نے اپنے محل میں مجلس سجارکھی تھی ، اس کے ہم قماش چاروں طرف بیٹھے تھے تاکہ بزم عم خود اس کامیابی کا جشن منائيں ۔



دربار ٍ یزید میں دختر حیسن کا استقلال

سرحسین (ع) کو یزید کے سامنے لا کر رکھا گیا اور اسی وقت اہل بیت (ع) کے اسیروں کو لایا گیا ، جس دختر حیسن (ع) نے اپنے باپ کے سر بریدہ کو دیکھا تو ہائے با با کہہ کر رونے لگی کہ جس سے مجلس والے پریشان ہوگۓ 
لیکن جب زینب (س) نے اپنے بھائی کا سر دیکھا تو ایسی غم انگیز آواز میں نوحہ پڑھا کہ جس نے کلیجے ہلا دیۓ ۔
" یا حسیناہ ، یا حبیب اللہ ، یا بن مکۃ و منی ، یا بن فاطمۃ الزھراء سیدۃ النساء ، یا بن بنت المصطفی :
اے حیسن (ع) ! اے حبیب خدا ، اے مکہ و منی کے فرزند ، اے دختر رسول فاطمہ زہرا سیدۃ النساء العالمین کے نورنظر
راوی کہتا ہے کہ قسم خدا کی زینب نے مجلس کے ہر شخص کو رلا دیا [22] یزید لعین شراب خوار اپنی جاہ طلبی کے نشہ میں چور خاموش بیٹھا تھا ، اور سید الشھداء کے دندان مبارک پر چھڑی لگارہا تھا [23] اور کہہ رہا تھا : کاش آج اس مجلس میں بدر میں مرنے والے میرے بزرگ اور قبیلہ خزرج کی مصیبتوں کے شاہد ہوتے تو خوشی سے اچھل پڑتے اور کہتے : شاباش اے یزید تیرا ہاتھ شل نہ ہو ، ہم نے ان کے بزرگوں کو قتل کیا اور بدر کاانتقام لے لیا ۔



خطبہ زینب سلام اللہ علیہ

بنت علی تسلسلِ کرب و بلا بنی
انسانیت کے ننگے سروں کی ردا بنی
زینب امیرِ قافلہ ء کربلا بنی
دربارِ شام میں وہ علی کی صدا بنی
دشمن سماعتوں میں زہر گھولتے رہے
زینب کے بازؤں کے رسن بولتے رہے
(صفدر ھمدانی) 
زینب (‏س)اپنی والدہ حضرت فاطمہ زہراء (س)کی طرح ظالموں کے سامنے قد بلند کرتی ہیں بھے دربار میں خدا کی حمدو ستائش کرتی ہیں اور رسول(ص) و آل رسول (ع) پر درود بھیجتی ہیں اور پھر قرآن کی آيت سے اپنے خطبہ کا اس طرح آغاز کرتی ہیں :
" ثم کان عاقبۃ الذین اساؤاالسوای ان کذبوا بآیا ت اللہ ۔۔۔۔" 
شہرحلب میں ایک پتھر پر امام حسین کے خون کے دھبے نمایاں ہیں یزید تویہ سمجھتا تھا کہ تونے زمین و آسمان کو ہم پر تنگ کردیا ہے تیرے گماشتوں نے ہمیں شہروں شہروں اسیری کی صورت میں پھرایا تیرے زعم میں ہم رسوا اور تو باعزت ہوگیا ہے ؟ تیرا خیال ہے کہ اس کام سے تیری قدر میں اضافہ ہوگیا ہے اسی لۓ ان باتوں پر تکبر کررہا ہے ؟ جب تو اپنی توانائی و طاقت (فوج) کو تیار دیکھتا ہے اور اپنی بادشاہت کے امور کو منظم دیکھتا ہے تو خوشی کے مارے آپے سے باہر ہوجاتا ہے ۔
تو نہیں جانتا کہ یہ فرصت جو تجھے دی گئی ہے کہ اس میں تو اپنی فطرت کو آشکار کرسکے کیاتو نے قول خدا کو فراموش کردیا ہے ۔ کافر یہ خیال نہ کریں کہ یہ مہلت جو انھیں دی گئي ہے یہ ان کے لۓ بہترین موقع ہے ، ہم نے ان کو اس لۓ مہلت دی ہے تاکہ وہ اپنے گناہوں میں اور اضافہ کرلیں ، پھر ان پر رسوا کرنے والا عذاب نازل ہوگا ۔
پسر طلقاء کیا یہ عدل ہے تیری بیٹیاں اور کنیزیں باعزت پردہ میں بیٹھیں اور رسول کی بیٹیوں کو تو اسیر کرکے سربرہنہ کرے ، انہیں سانس تک نہ لینے دیا جاۓ ، تیری فوج انھیں اونٹوں پر سوار کرکے شہر بہ شہر پھراۓ ؟ نہ انہیں کوئي پناہ دیتا ہے ، نہ کسی کو ان کی حالت کاخیال ہے ، نہ کوئی سرپرست ان کے ہمراہ ہوتا ہے لوگ ادھر ا‍‌‌‎ دھر سے انہیں دیکھنے کے لۓ جمع ہونے ہیں ، لیکن جس کے دل میں ہمارے طرف سے کینہ بھرا ہوا ہے اس سے اس کے علاوہ اور کیا توقع کی جاسکتی ہے ؟ 
تو کہتا ہے کہ کاش جنگ بدر میں قتل ہونے والے میرے بزرگ موجود ہوتے اور یہ کہہ کر تو فرزند رسول (ص) کے دندان مبارک پر چھڑی لگاتا ہے ؟ کبھی تیرے دل میں یہ خیال نہیں آتا ہے کہ تو ایک گناہ اور برے کام کا مرتکب ہوا ہے ؟ تونے آل رسول (ص) اور خاندان عبدالمطلب کا خون بہا کر دو خاندانوں کی دشمنی کو پھر زندہ کردیا ہے ۔ 
خوش نہ ہو کہ تو بہت جلد خدا کی بارگاہ میں حاضر ہوگا ، اس وقت یہ تمنا کرے گا کہ کاش تو اندھا ہوتا اور یہ دن نہ دیکھتا تو یہ کہتا ہے کہ اگر میرے بزرگ اس مجلس میں ہوتے تو خوشی سےاچھل پڑتے ، اے اللہ تو ہی ہمارا انتقام لے اور جن لوگوں نے ہم پرستم کیا ہے ان کےدلوں کو ہمارے کینہ سے خالی کردے ،خداکی قسم تو اپنے آپے سے باہر آ گیا ہے اور اپنے گوشت کو بڑھالیا ہے ۔
جس روز رسول (ص)خدا ،ان کے اہل بیت (ع) ، اور ان کے فرزند رحمت خدا کے سایہ میں آرام کرتے ہوں گے تو ذلت و رسوائی کےساتھ ان کے سامنے کھڑا ہوگا ۔یہ دن وہروز ہے جس میں خدا اپنا وعدہ پورا کرے گا وہ مظلوم و ستم دیدہ لوگ جو کہ اپنے خون کی چادر اوڑھے ایک گوشے میں محو خواب ہیں ، انہیں جمع کرے گا ۔
خدا خود فرماتا ہے : " راہ خدا میں مرجانے والوں کو مردہ نہ سمجھو بلکہ وہ زندہ ہیں اور اپنے پروردگار کی نعمتوں سے بہرہ مند ہیں ، تیرے باپ معاویہ نے تجھے ناحق مسلمانوں پر مسلط کیا ہے ، جس روز محمد (ص) داد خواہ ہوں گے اور فیصلہ کرنے والا خدا ہوگا ، اور عدالت الہی میں تیرے ہاتھ پاؤں گواہ ہوں گے اس روز معلوم ہوگا کہ تم میں سے کون زیادہ نیک بخت ہے ۔
یزید اے دشمن خدا ! میری نظروں میں تیری بھی قدر و قیمت نہیں ہے کہ میں تجھے سرزنش کروں یا تحقیر کروں ، لیکن کیا کروں میری آنکھوں میں آنسو ڈبڈبا رہے ہیں دل سے آہیں نکل رہی ہیں ، شہادت حسین (ع) کے بعد لشکر شیطان ہمیں کوفہ سے ناہنجاروں کے دربار میں لایا تاکہ اہلبیت (ع) پیغمبر (ص) کی ہتک حرمت و عزت کرنے پر مسمانوں کے بیت المال سے ، جو کہ زحمت کش و ستم دیدہ لوگوں کی محنتوں کا صلہ ہے ، انعام حاصل کرے ۔
جب اس لشکر کے ہاتھ ہمارے خون سے رنگین ہوئے اور دہان ہمارے گوشت کے ٹکڑوں سے بھر گۓ ہیں ، جب ان پاکیزہ جسموں کے آس پاس درندہ کتے دوڑ رہے ہیں ایسے موقع پر تجھے سرزنش کرنے سے کیا ہوتا ہے ؟ 
اگر تو یہ سمجھتا ہے کہ تونے ہمارے مردوں کو شہید اور ہمیں اسیر کرکے فائدہ حاصل کر لیا ہے تو عنقریب تجھے معلوم ہوجاۓ گا کہ جسے تو فائدہ سمجھتا ہے وہ نقصان کے سوا کچھ نہیں ہے ، اس روز تمہارے کۓ کے علاوہ تمارے پاس کچھ نہ ہوگا ، تو ابن زیاد سے مدد مانگے گا اور وہ تجھ سے ، تو اور تیرے پیروکار خدا کی میزان عدل کے سامنے کھڑے ہوں گے ۔
تجھے اس روز معلوم ہوگا کہ بہترین توشہ جو تیرے باپ معاویہ نے تیرے لۓ جمع کیا ہے وہ یہ ہے کہ تو نے رسول (ص) خدا کے بیٹوں کو قتل کردیا ۔
قسم خدا کی میں خدا کے سوا کسی سے نہیں ڈرتی اور اس کے علاوہ کسی سے شکایت نہیں کرتی ، جو چاہو تم کرو ، جس نیرنگی سے کام لینا چاہو لو ، اپنی ہردشمنی کا اظہار کرکے دیکھ لو ، قسم خدا کی جو ننگ کا دھبہ تیرے دامن پر لگ گيا ہے وہ ہرگز نہ چھوٹے گا ، ہر تعریف خدا کے لۓ ہے جس نے جوانان بہشت کے سرداروں کو کامیابی عطا کی ، جنت کو ان کے لۓ واجب قرار دیا ، خداوند عالم سے دعا ہے کہ ان کی عظمت و عزت میں اضافہ فرماۓ ان پر اپنی رحمت کے سائیہ کو مزید گستردہ کردے کہ تو قدرت رکھنے والا ہے ۔
سفیر کربلا کی خوابیدہ ضمیروں میں بیداری
زینب حسینیت کی بقا کا پیام ہے
زینب کلامِ عکسِ امام الکلام ہے
زینب یزیدیت سے عداوت کا نام ہے
زینب دراصل فاتحِ دربارِ شام ہے
لہجے میں مرتضیٰ کے وہ جب بولنے لگی
بنیادِ ظلم وجورو جفا ڈولنے لگی
(صفدر ھمدانی) 
شام والے رفتہ رفتہ عراق میں گزرجانے والے حادثہ کی حقیقت سے آگاہ ہوگۓ اور انہیں یہ معلوم ہوگیا کہ کربلا والے یزید کے حکم اور کوفہ کی فوج کے ہاتھوں شہید ہوۓ ہیں رسول (ص) خدا کے نواسے حسین بن علی (ع) اور یہ خواتین بچے جنہیں قیدی بناکر دمشق لایا گيا ہے یہ پیغمبر اسلام (ص) کے اہلبیت (ع) یہ اس کاخاندان ہے جس کی جانشینی کے نام پر یزید ان پر دوسرے مسلمانوں پر حکومت کررہا ہے 
بازار حمیدیہ جہاں شہدائے کربلا کی عورتوں اور بچوں کو اونٹوں پر لایا گیا۔ خطبہ ذینب کبری کے سوختہ جگر اور تقوی سے سرشار دل سے نکلے ہوئے کلمات کا رد عمل یہ ھوا معلوم کہ پتھر دل والا بھی جب ایمان و تقوی سے سرشار ھوا اور خود کو ناتوان اور مدمقابل کو طاقتور سمجھے لگا ۔ چند لحظوں کے بعد ھی قصریزید میں موت کا سناٹا چھاگیا ۔
یزید نے حاضرین کی پیشانیوں سے ناراضی اور نفرت کے آثار دیکھے تو کہنے لگا خدا ابن مرجانہ کو غارت کرے ، میں حسین (ع) کے قتل کو پسند نہیں کرتا تھا ، اس کے بعد اس بات کی طرف متوجہ ہوا کہ اسیروں کو اسی حالت میں رکھنا مصلحت کے خلاف ہے ، حکم دیا کہ انہیں دوسری جگہ منتقل کردو ۔قریش کی خواتین میں سے جو بھی ان سے ملنا چاہتی ہے مل سکتی ہے ۔ 
عظمت زینب سلام اللہ علیہا کی عظمت اور قوت قلب اس وقت اور اچھی طرح آشکار ہوجاتی ہے کہ جب یزید کی مجلس میں آپ کی روحانی حیثیت اور رخطبہ اپنا اثر قائم کرتا ہے ۔
جس زینب (س) نے مدینہ منورہ سے مکہ معظمہ اور مکہ معظمہ سے کربلا اور کربلاسے کوفہ اور کوفہ سے شام کے سفر کے دوران بڑی بڑی مصیبتیں اٹھائی ہیں اور سفر میں ذرہ برابر آرام میسر نہیں آیا اور کسی ایک شخص یا جماعت کی حمایت کے بغیر قافلہ سالاری کو سنبھالے رہیں اور منزل بہ منزل ان کی حفاظت کرتی رہیں ۔
اس ماحول میں لب کشائی کے لۓ شیر کا کلیجہ اور جرئت درکار ہے ، زینب (س) کی رگوں میں علی (ع) و فاطمہ (س) کا خون دوڑ رہا ہے ۔ آپ اپنے زمانہ کے بڑے بت کے سامنے اس شجاعت و شہامت سے ایسے سخن ریز ہوتی ہیں اور اہلبیت (‏ع) کی فریاد مظلومیت پوری تاریخ میں پھیلادیتی ہیں اور خوابیدہ ضمیروں کو بیدار کردیتی ہیں ۔

کلام زینب (س) کے چند نکات

جناب زینب (س) کی تقریر ایسی منطقی اور شعلہ ور تھی کہ جس کس مقابلہ میں کوئي شخص کھڑا نہیں رہ سکتا تھا ، زینب (س) کی تقریر کی قاطعیت و جامعیت نے یزید جیسی پلید شخصیت کے تمام پہلوؤں کو اجاگر کردیا اور رسول (ص) اور آل رسول (ع) کی عظمت و کرامت کو یاد دلایا اور الہی اقدار کو اقدار کی ضد سے جدا کردیا ۔
اگر چہ آپ (س) کا پورا خطبہ ہی نکاس معمور ہے اور رھتی دنیا تک چراغ راہ اور سر چشمہ ھدایت ھے لیکن اس کے چند پہلوبہت اھم ھیں جو سیدہ کو سفیر کربلا بنا جاتے ھیں ۔



1. ظالم کی پہچان اس کے سیاہ کارناموں سے ھوتی ھے 

جناب زینب (س) کے خطبہ کے برجستہ ابعاد میں سے ایک پہلو یزید کے خاندان کے سیاہ کارنامے اور اس کی ناپاکی کے ریشے ہیں ، زینب (س) خاندان یزید کی پلیدیوں کو شمار کراتی ہیں اور کسی شخص میں ان کی تردید کی طاقت نہیں ہے ۔ اے یزید تو ہندہ کا بیٹا ہے اور ہندہ وہ عورت ہے کہ جس نے جنگ احد میں لشکر رسول (ص) کے سردار سید الشہداء حضرت حمزہ کا جگر اپنے دانتوں سے چباکر پھینک دیا تھا ،ایسے خاندان سے سانحہ کربلا کے علاوہ اورکوئی توقع نہیں رکھی جاسکتی ۔
2. تاریخ اسلام میں اسیری کی تعریف 
زینب (س) یزید کو ابن طلقاء کہکر مخاطب کوتی ہیں ، طلقاء ان لوگوں کو کہتے ہیں جو کہ رسول خدا سے دشمنی رکھتے تھے جنگ کرتے تھے لیکن فتح مکہ کے وقت رسول (ص) نے انہیں آزاد کودیا تھا اور فرمایا تھا : "اذ ھبوا انتم الطلقا "_30 جاؤ تم سب آزاد ہو یزید انہیں اشخاص کا بیٹا ہے جنھیں رسول نے آزاد کردیا تھا اور آج اس نے خاندان پیغمبر (ص) کو اسیر بنا رکھا ہے ، اس جملہ کے ذریعہ زینب (س) نے یزید کو یہ سمجھادیا کہ درحقیقت قیدی تو ہے ہماری اسیری ہماری ذلت پر دلیل نہیں ہے اور نہ تیری طاقت تیری عظمت و کامیابی پر دلیل ہے۔
جناب زینب (س) کی اس تقریر سے بخوبی یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ زینب کو تاریخ اسلام پر کتنا عبور تھا ۔
3. حزب اللہ اور گروہ شیطان

جناب زینب(س) اپنے سرفراز خاندان کے نام کو حزب اللہ اور یزید کے ناپاک خاندان کو گروہ شیطان کے نام سے یاد کرتی ہیں اور فرماتی ہیں : بڑے تعجب کی بات ہے کہ حزب اللہ ، گروہ شیطان اور آزاد شدہ لوگوں کے ہاتھوں مارا جاۓ ، ہمارا خون تمہارے ہاتھوں سے ٹپک رہا ہے اور تمہارے منھ سے ہمارا گوشت نکلا پڑرہا ہے ۔

4. پردہ کی اہمیت

جناب زینب (س) کے کلام سے تمام با ایمان اور اہلبیت (ع) کا اتباع کرنے والوں کو جو پیغام دیا جاسکتا ہے وعفت و حجاب کا پیغام ہے زینب خاندان پیغمبر (ص) کی خواتین بیٹیوں کو قیدی بناکر شہروں شہروں ، کوچہ و بازار میں سربرہنہ مجمع عام میں پھرانے پر تند و سخت لہجہ میں اعتراض کرتی ہیں اور اس حرکت کو عدل کے خلاف قرار دیتی ہیں ، یہ حساسیت مسلمان عورت کے حجاب و عفت کی اہمیت کی غماز ہے ، اس سے ہمیشہ دفاع کرنا چاہۓ ۔
5. پیشن گوئي
زینب (س) نے اپنے خطبہ کے آخر میں اعتماد کے ساتھ فرمایا : اے یزید تو اپنے تمام مکر و حیلوں کو استعمال کرلے اور اپنی پوری طاقت سے کوشش کرلے لیکن قسم خدا کی تو ہماری یاد کو نہیں مٹا سکتا ہے اور وحی الہی کو نابود نہیں کرسکتا ہے _ _ _ ہر تعریف خدا ہی کے لۓ ہے کہ جس نے ہمارا آغاز سعادت و مغفرت سے اور اختتام شہادت و رحمت پر کیا ۔



سایہ کیے سروں پہ ھے چادر بتول کی
مانگو دعا جو چاھو گھڑی ھے قبول کی
کھاتا ہوں میں قسم یہ حدیثٍ رسول ھے
عبرت ھے موت ، دشمنٍ آلٍ رسول کی 
(صفدر ھمدانی)