لشکر جھنگوی نے اپنے ایک کارکن کو جونیئر رپورٹر کے طور پر جیو میں بھرتی کرایا، نیویارک ٹائمز کا دعویٰ

جیو کے ایک ملازم نے کراچی میں مہران بیس پر حملے میں مدد فراہم کی۔ نیویارک ٹائمز نے اپنی رپورٹ میں جیو کے ایک سابق منیجر کے حوالے سے چونکا دینے والے انکشافات کئے ہیں۔

 امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے انکشاف کیا ہے کہ جیو کے ایک ملازم نے کراچی میں مہران بیس پر حملے میں مدد فراہم کی۔ نیویارک ٹائمز نے اپنی رپورٹ میں جیو کے ایک سابق منیجر کے حوالے سے چونکا دینے والے انکشافات کئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق سن دو ہزار بارہ میں کالعدم تنظیم لشکر جھنگوی نے اپنے ایک کارکن کو جونیئر رپورٹر کے طور پر جیو میں بھرتی کرایا، رپورٹر کے لبادے میں چھپے کالعدم تنظیم کے کارکن کا مقصد ایک نیوز ایڈیٹر اور ٹاک شو کے میزبان کو قتل کرنا تھا لیکن یہ رپورٹر پکڑے جانے کے باعث اپنے منصوبے کو عملی جامہ نہ پہنا سکا۔
نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق 2011ء میں کراچی میں مہران بیس پر حملے میں بھی جیو کا ایک ملازم ملوث تھا۔ حملے کے بعد جیو کے اس ملازم کی شدت پسند کے طور پر شناخت کی گئی۔ جیو کے سابق منیجر کے حوالے سے اخبار نے لکھا ہے کہ جیو کے مقتول رپورٹر ولی خان بابر کی موت کے پیچھے بھی جیو کے ہی ایک ملازم کا ہاتھ تھا۔ جیو کے ملازم نے ولی خان بابر کے قاتلوں کو اس کے عزائم سے آگاہ کیا اور انہوں نے گھر جاتے ولی خان بابر کو ہلاک کر دیا۔

امریکی خاتون حرم امام رضا (ع) میں شیعہ ہو گئی





امریکہ کی ایک خاتون امام علی بن موسی الرضا علیہ السلام کے حرم مطہر میں حاضر ہو کر دین اسلام سے مشرف ہو گئی۔


 امریکہ کی ایک خاتون امام علی بن موسی الرضا علیہ السلام کے حرم مطہر میں حاضر ہو کر دین اسلام سے مشرف ہو گئی۔
’’ایمی‘‘ نامی امریکی خاتون نے مسلمان ہونے کے بعد کہا: اربعین کے روز نیویارک میں کچھ شیعوں سے میری ملاقات ہوئی انہوں نے نذر کے طور سے کچھ کھانا مجھے دیا جب میں نے امام حسین (ع) اور واقعہ کربلا کے بارے میں ان سے سوالات کئے تو انہوں نے بہت دلچسپ جواب دئے۔
شیعہ ہونے کے بعد اس خاتون نے اپنا نام ’’آمنہ ‘‘ انتخاب کیا اور کہا: میں نے دین اسلام کے بارے میں تحقیق کی ہے اور میں نے اسلام کو کامل دین پایا ہے جو انسان کی تمام ضروریات کو پورا کر سکتا ہے۔
آمنہ نے مزید کہا: اسلام کے پاس انسان کی اچھی زندگی کے لیے جامع دستورات العمل ہیں میں نے جو اس سلسلے میں مطالعہ کیا تو اسلام کے اندر شیعہ مذہب کو بہترین مذھب پایا ہے۔ میں امام رضا علیہ السلام کے روضے میں اطمینان اور سکون کا احساس کر رہی ہوں اور مجھے امید ہے کہ میں ایک حقیقی مسلمان بنوں گی۔

سعودی عرب نے شامی فوج سے شکست کھا کر بھاگنے والے دہشت گردوں کو قتل کرنے کی دھمکی دیدی



شامی فوج کی صوبہ الحسکہ میں کارروائی کے دوران اہم دہشت گرد کمانڈر "اورہان ترکی" ہلاک ہوگيا ہے.

 شامی فوج کی صوبہ الحسکہ میں کارروائی کے دوران  اہم دہشت گرد کمانڈر "اورہان ترکی" ہلاک ہوگيا ہے ادھر اردن کی سرحد پر سعودی عرب اور فرانس کے انٹیلیجنس افسروں نے شامی فوج سے شکست کھا کر بھاگنے والے سلفی وہابی دہشت گردوں کو قتل کرنے کی دھمکی دیدی ہے۔
ادھر شامی فوج نے القلمون کے علاقہ میں دہشت گردوں پر کاری ضرب وارد کرتے ہوئے اس علاقہ کے بڑے حصہ پر کنٹرول حاصل کرلیا ہے۔شامی فوج نے مغربی اور مشرقی غوطہ میں بھی کئي درجن دہشت گردوں کو واصل جہنم کردیا ہے۔
.

Characteristics of life of Bibi Syeda Fatima (S.A)

نبی مکرم اسلام: جو اسے جانتا ہے وہ تو اسے جانتا ہی ہے اور جو نہیں جانتا وہ اسے پہچان لے کہ یہ فاطمہ بنت محمد ہے اور یہ میرا ٹکڑا ہے اور یہ میرے دونوں پہلووں کے در میان دھڑکنے والا میرا دل ہے لہذا جس نے اسے ستایا اس نے مجھے تکلیف دی اور جس نے مجھے تکلیف پہنچائی اس نے اللہ کو تکلیف دی ہے۔

شہزادی کائناتؑ، اللہ تعالی کے سب سے عظیم الشان پیغمبر کی بیٹی ،پہلے امام امیر المؤمنین ؑ کی شریکۂ حیات، سلسلہ امامت کی دو درخشندہ ترین شخصیتوں کی مادر گرامی ہیں بیشک آپ ہی آخری رسالت الٰہیہ کا روشن ومنور آئینہ ہیں نیز عالمین کی عورتوں کی سیدۂوسردار اور رسول اطہر کی پاک وپاکیزہ ذریت کا صدف اور ان کی طیب و طاہر نسل کا سر چشمہ آپ ہی کی ذات ہے۔


آپ کی تاریخ، رسالت کی تاریخ سے جڑی ہوئی ہے کیونکہ آپ ہجرت سے آٹھ سال پہلے پیدا ہوئیں اور آنحضرتؐ کی وفات کے چند مہینے بعدہی اس دنیا سے تشریف لے گئیں ۔

آپ کی عظمت و منزلت نیزمقصد شریعت کے بارے میں آپ کی دوڑدھوپ کی بنا پر نبی اکرمؐ نے زبان وحی ورسالت سے اسکا بارباراسی طرح اعلان کیا ہے جس طرح قرآن مجید نے صراحت کے ساتھ اہلبیت ؑ کے فضائل و کرامات کا تذکرہ کرنے کے علاوہ شہزادی کائنات کی عظمت ومنزلت کا خصوصی تذکرہ بھی فرمایاہے۔

شہزادی ؑ کائنات قرآن مجید کی روشنی میں 


جن لوگوں نے حق کی راہ میں قربانی دی ہے قرآن مجید کی آیتوں میں ان کی تجلیل و تعظیم کے ساتھ ساتھ ان کی مدح و ثنا بھی ہوئی ہے چنانچہ ان آیتوں کی تلاوت کا سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا ۔

قرآن مجید نے جن لوگوں کا خصوصی تذکرہ کیا ہے اور ان کے کردار اور فضائل و کمالات کی نمایاں طور سے تعریف کی ہے ان میں اہلبیت ؑ پیغمبر ہر مقام پر سر فہرست نظر آتے ہیں مورخین اور مفسرین نے نقل کیا ہے کہ ان حضرات کی مدح وثنا میں کثرت کے ساتھ قرآن مجید کی آیتیں نازل ہوئی ہیں بلکہ قرآن مجید کے متعدد سورے تو ان کے بتائے ہوئے جادۂ حق اور ان کے حسن عمل کی تائید اور مدح سرائی کے ساتھ ان کی پیروی کی دعوت سے مخصوص ہیں۔

۱۔کوثر رسالت


کوثر یعنی خیر کثیر اور اگر چہ بظاہر اس میں وہ تمام نعمتیں شامل ہیں جن سے اللہ تعالی نے اپنے آخری نبی حضرت محمد مصطفیؐ کو نوازا تھا لیکن سورۂ کوثر کی آخر ی آیت کی شان نزول کے بارے میں جو تفصیلات ذکر ہوئے ہیں ان سے یہ بالکل واضح ہے کہ اس خیر کثیر کاتعلق کثرت نسل اور اولاد سے ہے جیسا کہ آج پوری دنیا جانتی ہے کہ رسول اسلامؐ کی نسل طیبہ آپ کی اکلوتی بیٹی حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے ہی چلی ہے جسکا تذکرہ حضور اکرمؐ کے بعض احادیث میں بھی موجود ہے۔

مفسرین نے اس سلسلہ میں یہ نقل کیا ہے کہ عاص بن وائل نے ایک دن قریش کے بڑے بڑے لوگوں سے یہ کہا:محمد تو لا ولد،ہیں اور ان کا کوئی بیٹا نہیں ہے (۱)جو ان کا جانشین بن سکے لہٰذا جس دن یہ دنیا سے چلے جائیں گے اس دن ان کا کوئی نام لینے والا بھی نہ رہے گا۔

یہی شان نزول جناب ابن عباس اور اکثر اہل تفسیر نے ذکر کی ہے(۲)اور مشہور مفسر، فخر رازی نے کوثر کے معنی کے بارے میں اگر چہ مفسرین کے اختلاف کا تذکرہ کیا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے واضح الفاظ میں یہ بھی تحریر کیا ہے کہ’’اور تیسرا نظریہ ،یہ ہے کہ کوثر سے مراد آپ ؑ کی اولاد ہے ۔۔۔کیونکہ یہ سورہ اس شخص کے جواب میں نازل ہوا ہے جس نے آپؑ کو بے اولاد ہونے کا طعنہ دیا تھا لہذا اس کے معنی یہ ہیں کہ آپ کو ایسی نسل عطا گئی ہے جو ہمیشہ باقی رہے گی(اسکے بعد کہتے ہیں)چنانچہ آپ خود دیکھ سکتے ہیں کہ اہلبیت ؑ کا کس طرح قتل عام کیا گیا ہے؟پھر بھی دنیا ان سے بھری ہوئی ہے جب کہ بنی امیہ کا کوئی نام لینے والا بھی نہیں ہے نیز آپ یہ بھی دیکھئے کہ ان کے در میان کتنے بڑے بڑے اور اکا بر علماء گذرے ہیں جیسے (امام محمد )باقر(امام جعفر)صادق(امام موسیٰ)کاظم (امام علی)رضا  علیہم السلام اور نفس زکیہ و غیرہ ۔

جس طرح آیۂ مباہلہ دلیل ہے (۳)کہ امام حسن و حسین ؑ رسول اللہ ﷺکے بیٹے ہیں اسی طرح اس بارے میںآنحضرتؐ کی متعددحدیثیں بھی موجود ہیں کہ خداوند عالم نے ہر نبی کی ذریت اسکے صلب میں رکھی ہے اور ختمی مرتبتؐ کی نسل کو حضرت علی ؑ کے صلب میں قرار دیا ہے نیز صحاح میں پیغمبر اکرمؐ کی یہ حدیث نقل کی گئی ہے کہ آپ نے امام حسن ؑ کے بارے میں یہ فرمایاتھا:میرا یہ بیٹا سید و سردار ہے اور اللہ عنقریب اس کے ذریعہ دو بڑے گروہوں میں صلح کرائے۔ (۴)

۲۔فاطمہ زہرا ؑ سورۂ دہر میں


ایک روزامام حسن ؑ اور امام حسین ؑ مریض ہوئے اور رسول اسلام ؐکچھ لوگوں کے ساتھ ان کی عیادت کرنے گئے تو آپؐ نے فرمایا: اے علی ؑ تم اپنے ان دونوں بیٹوں کی شفا کے لئے کچھ نذر کر لو!چنانچہ حضرت علی ؑ و فاطمہؐ اور آپ ؑ کی کنیز فضہ نے یہ نذر کی کہ اگر یہ دونوں شفا یاب ہوگئے تو ہم تین روز ے رکھیں گے چنانچہ دونوں شہزادے بالکل شفا یاب ہوگئے گھر میں کچھ نہیں تھاحضرت علی ؑ ،شمعون یہودی سے تین صاع(سیر) جو ادھار لیکر آئے جن میں سے شہزادی کائنات ؑ نے ایک سیر جو کاآٹا پیس کر اسی کی پانچ روٹیاں بنالیں اور سب لوگ انھیں اپنے سامنے رکھ کر افطار کرنے بیٹھ گئے کہ اسی وقت ایک سائل نے آکر سوال کیا:اے حضرت محمدؐ کے اہلبیت ؑ آپ حضرات کی خدمت میں سلام عرض ہے،میں مسلمان مسکینوں میں سے ایک مسکین ہوں مجھے کھانا عطا فرما دیجئے اللہ تعالی آپ کو جنت کے کھانوں سے سیر وسیراب فرمائے:سب نے ایثار کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی تمام روٹیاں سائل کو دے دیں اور پانی کے علاوہ کچھ نہیں چکھا اور صبح کو پھر روزہ رکھ لیا شام کو جب روزہ کھولنے کے لئے بیٹھے تو ایک یتیم نے آکر سوال کرلیا اور انھوں نے اس یتیم کو اپنا کھانا دیدیا تیسرے دن ایک اسیر آگیا اور اس دن بھی گذشتہ واقعہ پیش آیا صبح کو حضرت علی ؑ امام حسن ؑ اور امام حسین ؑ کا ہاتھ پکڑ کر رسول اکرمؐ کی خدمت میں لے گئے جب ان پر آنحضرتؐ کی نظرپڑی تو دیکھا کہ وہ بھوک کی شدت سے لرز رہے ہیں آپؐ نے فرمایا میرے لئے یہ کتنی تکلیف دہ بات ہے یہ تمہاری کیا حالت ہے؟پھرآپؐ ان کے ساتھ جناب فاطمہؐ کے گھر تشریف لے گئے تو کیا دیکھا کہ شہزادیؑ کائنا ت محراب میں مشغول عبادت ہیں اور ان کاپیٹ کمر سے ملا ہوا ہے اور آنکھیں اندر دھنس چکی تھیں یہ دیکھ کر آپ کو مزید تکلیف ہوئی تب جناب جبرئیل آپ کی خدمت میں نازل ہوئے اور کہا :اے محمدؐ آپ کو مبارک ہو یہ لیجئے خداوند عالم نے آپ کو آپ کے اہل بیت ؑ کے بارے میں مبارکبادپیش کی ہے ،پھر انھوں نے اس سورہ کی تلاوت فرمائی۔(۵)


مختصر یہ کہ شہزادی کائناتؐ ان لوگوں میں شامل ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالی نے یہ گواہی دی ہے کہ آپ ان نیک لوگوں میں سے ہیں جو اس جام شربت سے سیراب ہوں گے جس میں کافور کی آمیزش ہوگی یہی وہ حضرات ہیں جو اپنی نذر کوپوراکرتے ہیں اور اس دن کے شر سے خائف رہتے ہیں جس کا شر ہر ایک کو اپنی لپیٹ میں لے لے گااور یہی وہ حضرات ہیں جو کھا نے کی ضرورت ہونے کے باوجود اپنے اوپر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں چاہے اسکی وجہ سے انھیں دشواریوں کا سامنا ہی کیوں نہ کرنا پڑے اور وہ صرف خدا کی مرضی اور خوشی کے لئے کھانا کھلاتے ہیں اور ان سے کسی قسم کے شکریہ اور بدلہ کے خواہشمند نہیں رہتے یہی وہ حضرات ہیں جنھوں نے خدا کے لئے صبر وتحمل سے کام لیا ہے ۔۔۔ اور انہی کو خداوند عالم اس بد ترین دن کے شر سے محفوظ رکھا ہے ۔۔۔ اور ان کے صبر و تحمل کے انعام میں انہیں جنت و حریر سے نوازا ہے۔(6)

۳۔فاطمہ زہراؑ آیت تطہیرمیں


آیۂ تطہیر رسول خداؐ پر اس وقت نازل ہوئی جب آپ جناب ام سلمہ (س)کے گھر میں تشریف فرما تھے اور آپ نے اپنے دونوں نواسوں حسن ؑ و حسین ؑ اور ان کے والد اور والدۂگرامی کو اپنے پاس بٹھاکر اپنے اور ان کے اوپر ایک چادر ڈال دی تا کہ آپ کی ازواج اور دوسرے لوگ ان سے بالکل علٰیحد ہ ہوجائیں تو یہ آیت نازل ہوئی:

(انما یرید اللّٰہ لیذہب عنکم الرجس اہل البیت و یطہرکم تطہیرا)(۷)

اے اہلبیتؑ اللہ کا ارادہ یہ ہے کہ تم سے رجس اور گندگی کو دور رکھے اور تمہیں اسی طرح پاک رکھے جوپاک وپاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔

یہ حضرات ابھی اسی طرح بیٹھے ہوئے تھے کہ پیغمبرؐ نے اسی پر اکتفا نہیں کی بلکہ چادر سے اپنے ہاتھ باہر نکال کر آسمان کی طرف بلند کئے اور یہ دعا فرمائی:
’’اللہم ہولاء اہل بیتی فاذہب عنہم الرجس و طہرہم تطہیراً ‘‘۔
بارالہٰا! یہ میرے اہلبیت ہیں لہٰذا تو ان سے رجس کو دور رکھنا اور انھیں پاک و پاکیزہ رکھنا۔
آپ باربار یہی دہرا رہے تھے اور جناب ام سلمہ یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی تھیں اور آنحضرتؐکی آواز بھی سن رہی تھیں اسی لئے وہ بھی یہ کہتی ہوئی چادر کی طرف بڑھیں :اے اللہ کے رسول میں بھی آپ حضرات کے ساتھ ہوں؟ تو آپ نے ان کے ہاتھ سے چادر کا گوشہ اپنی طرف کھینچتے ہوئے فرمایا:نہیں تم خیر پر ہو؟(۸)
آیت نازل ہونے کے بعد رسول اسلام ؑ کا مسلسل یہ دستور تھا کہ آپ جب بھی صبح کی نماز پڑھنے کے لئے اپنے گھر سے نکلتے تھے تو شہزادیؑ کائنات کے دروازہ پر آکر یہ فرماتے تھے:
’’الصلاۃ یا اہل البیت انما یرید اللّٰہ لیذھب عنکم الرجس ویطہرکم تطہیراً‘‘
نما ز!اے اہلبیت بیشک اللہ کا ارادہ یہ ہے کہ تم سے ہر رجس اور برائی کو دور رکھے اور تمہیں پاک و پاکیزہ رکھے۔
آپ کی یہ سیرت چھ یاآٹھ مہینے تک جاری رہی۔(۹)
یہ آیت گناہوں سے اہلبیت ؑ کے معصوم ہونے کی بھی دلیل ہے کیونکہ رجس گناہ کو کہا جاتا ہے اور آیت کے شروع میں کلمۂ ’’ انّما ‘‘آیا ہے جو حصرپردلالت کرتا ہے جسکے معنی یہ ہیں کہ ان کے بارے میں اللہ کا بس یہ ارادہ ہے کہ ان سے گناہوں کو دوررکھے اور انہیں پاک وپاکیزہ رکھے اور یہی حقیقی اور واقعی عصمت ہے جیسا کہ نبھانی نے تفسیر طبری سے آیت کے یہی معنی وضاحت کے ساتھ بیان کئے ہیں۔(۱۰)


۴۔مودت زہرا ؑ اجر رسالت


جناب جابر نے روایت کی ہے کہ ایک دیہاتی عرب رسول خدا ؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا اے محمدؐ مجھے مسلمان بنادیجئے آپ نے فرمایا:یہ گواہی دو:

’’لا الہ الاا للّٰہ وحدہ لا شریک لہ وان محمداً عبدہ ورسولہ‘‘۔

’’اللہ کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے ،وہ لا شریک ہے اور محمد اس کے بندہ اور رسول ہیں‘‘۔

اس نے کہا آپ مجھ سے کوئی اجرت طلب کریں گے؟
فرمایا: نہیں صرف قرابتداروں کی محبت ،اس نے کہامیرے قرابتداروں یا آپ کے قرابتداروں کی؟ فرمایا میرے قرابتداروں کی وہ بولا میں آپ کی بیعت کرتا ہوں لہذا جو شخص بھی آپ اورآپ کے قرابتداروں سے محبت نہ کرے اس پر خدا کی لعنت ہو ،آپ نے فرمایا آمین۔(۱۱)
مجاہد نے اس کی یہ تفسیر کی ہے کہ اس مودت سے آپ کی پیروی آپ کی رسالت کی تصدیق اور آپ کے اعزاء سے صلۂ رحم کرنا مراد ہے جب کہ ابن عباس نے اس کی یہ تفسیر کی ہے کہ :آپ کی قرابتداری کا خیال رکھ کر اس کی حفاظت کی جائے ۔(۱۲)
زمخشری نے ذکر کیا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی اسی وقت رسول اللہ ؐ سے یہ سوال کیا گیا:اے اللہ کے رسول آپ کے وہ قرابت دار کون ہیں جن کی محبت ہمارے اوپر واجب کی گئی ہے؟آپ نے فرمایا:علی ؑ فاطمہ سلام اللہ علیہااور ان کے دونوں بیٹے۔(۱۳)

۵۔فاطمہ زہرا ؑ آیۂ مباہلہ میں


تمام اہل قبلہ حتی کہ خوارج کا بھی اس بات پر اجماع و اتفاق ہے کہ نبی اکرم ؐ نے مباہلہ کے لئے عورتوں کی جگہ صرف اپنی پارۂ جگر جناب فاطمہ زہراؐ کو اور بیٹوں میں اپنے دونوں نواسوں امام حسن ؑ اور امام حسین ؑ کو اور نفسوں میں صرف حضرت علی علیہ السلام کو ساتھ لیاجو آپ کے لئے ویسے ہی تھے جیسے موسیٰ کے لئے ہارون اور عیسائیوں سے مباہلہ کرنے کے لئے تشریف لے گئے اور صرف یہی حضرات اس آیت کے مصداق ہیں اور یہ ایک ایسی واضح و آشکار چیز ہے جس کا انکارکسی کے لئے ممکن نہیں ہے اوراس فضیلت میں کوئی بھی آپ حضرات کا شریک نہیں ہے اور جو شخص بھی تاریخ مسلمین کی ورق گردانی کرے گا اسے روز روشن کی طرح 

یہی نظر آئے گا کہ یہ آیت ان ہی سے مخصوص ہے اور ان کے علاوہ کسی اور کے لئے نازل نہیں ہوئی ہے۔(۱۴)

نبی اکرم ؐ ان حضرات کو اپنے ساتھ لے کر عیسائیوں سے مباہلہ کرنے کے لئے تشریف لے گئے اور آپ نے ان پر فتح حاصل کی، اس وقت امہات المومنین (ازواج نبیؐ)سب کی سب اپنے گھروں پر موجود تھیں مگر آپ نے ان میں سے کسی ایک کو بھی نہیں بلایا اور نہ ہی اپنی پھوپھی جناب صفیہ اور اپنی چچازاد بہن جناب ام ہانی کوساتھ لیا اور نہ ہی خلفائے ثلا ثہ کی ازواج یا انصار و مھاجرین کی عورتوں میں سے کسی کو اپنے ساتھ لے گئے۔

اسی طرح آپ نے جوانان جنت کے دونوں سرداروںیعنی (امام حسن اور امام حسین ؑ )کے ساتھ بنی ہاشم یاصحابہ کے کسی بچہ اور جوان کو نہیں بلایا اور نہ ہی حضرت علی ؑ کے علاوہ اپنے اعزاء واقرباء اور ابتدائی اور قدیم مسلمانوں اور اصحاب میں سے کسی کو دعوت دی اورجب ان چاروں حضرات کولے کر آپ باہر نکلے تو آپ کالے بالوں والی چادر اوڑھے ہوئے تھے جیسا کہ امام فخر رازی نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے کہ امام حسین ؑ آپ کی آغوش میں اور امام حسن ؑ آپ کی انگلی پکڑے ہوئے تھے جناب فاطمہؐ آپ کے پیچھے اور ان کے بعد حضرت علی ؑ چلے آرہے تھے اور آنحضرتؐ ان سے یہ فرما رہے تھے : جب میں دعا کروں توتم لوگ آمین کہنا، اُدھر اسقف نجران نے کہا:اے میرے عیسائی بھائیو!:میں ان چہروں کو دیکھ رہا ہوں کہ اگر یہ خدا سے پہاڑ کو اس کی جگہ سے ہٹانے کی دعا کردیں تو وہ اسے وہاں سے ،ہٹادے گا لہذا ان سے مباہلہ نہ کرنا ورنہ مارے جاؤگے اور قیامت تک روئے زمین پر کسی عیسائی کا نام ونشان باقی نہیں رہ جائے گا۔(۱۵)
فخر رازی اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں:یہ آیت دلیل ہے کہ حسنؑ اور حسینؑ رسول اللہ ؐ کے فرزندہیں کیونکہ آپ نے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ اپنے بیٹوں کولے کر آئیں گے اور آپ حسن و حسین ؑ کو ساتھ لائے تھے لہذا ان دونوں کا فرزند رسولؐہونا بالکل طے شدہ بات ہے۔(۱۶)


شہزادئ کائنات سلام اللہ علیہا سید المرسلین ؐکی نگاہ میں!


رسول اکرم ؐ نے فرمایا ہے:

( أن اللّہ لیغضب لغضب فاطمۃ ، و یرضی لرضاھا )

بیشک اللہ تعالی فاطمہؐ کی ناراضگی سے ناراض اور ان کے خوش ہوجانے سے راضی ہوجاتا ہے۔ (۱۷)

(فاطمۃ بضعۃ منی ؛ من آذاھا فقد آذانی ، و من أحبھا فقد أحبنی)
فاطمہ میرا ٹکڑا ہے جس نے اسے تکلیف پہنچائی اس نے مجھے تکلیف دی ہے اور جس نے اس سے محبت رکھی اس نے مجھ سے محبت رکھی ہے۔(۱۸)
(فاطمۃ قلبی و روحی التی بین جنبی)فاطمہ میرا دل اور میرے دونوں پہلووں کے در میان موجود میری روح ہے۔(۱۹)
(فاطمہ سیدہ نساء العالمین)فاطمہ عالمین کی عورتوں کی سردار ہیں۔(۲۰)
اس قسم کی شہادتیں کتب حدیث وسیرت میں رسول اکرم ؐ سے کثرت کے ساتھ مروی ہیں اورجو اپنی خواہش سے کوئی کلام ہی نہیں کرتے تھے نیز رشتہ داری یا دوسرے وجوہات سے بالکل متاثر نہیں ہوتے تھے اور خدا کی راہ میں آپ کو کسی بھی ملامت کرنے والے کی ملامت کی کوئی پروانہیں تھی۔
رسول اکرم ؐنے اپنے کو اسلام کی تبلیغ کے لئے بالکل وقف کر رکھا تھا اور آپ کی سیرت تمام لوگوں کے لئے
نمونہ عمل تھی،مختصر یہ کہ آپ کے دل کی دھڑکن،آنکھوں کی جنبش، ہاتھ پیر کی نقل و حرکت اور آپ کے افکار کی شعاعیں قول،فعل اور تقریر(یعنی آپ کی سنت)بلکہ آپ کا پورا وجود ہی دین کی علامت ،شریعت کا سر چشمہ، ہدایت کا چراغ اور نجات کا وسیلہ بن گیا۔
جتنا زمانہ گذرتا جارہا ہے اور اسلامی سماج جتنی ترقی کر رہا ہے اتنا ہی ان سے ہماری محبتوں میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے یا جب بھی ہم آنحضرت کے کلام میں اسلام کے اس بنیادی نکتہ کو دیکھتے ہیں کہ آنحضرتؐ نے ان سے یہ فرمایا تھا : ’’یا فاطمۃ اعملی لنفسک فانّی لا اغنی عنک من اللّہ شیئاً‘اے فاطمہؑ اپنے لئے عمل کرو کیونکہ میں خدا کی طرف سے تمہارے لئے کسی چیز کا ذمہ دار نہیں بن سکتا ہوں(۲۱) (یعنی ہر شخص اپنے عمل کا خود ذمہ دار ہے)۔
آپ ؐ نے فرمایا :(کمل من الرجال کثیر ، و لم یکمل من النساء إلا مریم بنت عمران ، و آسیۃ بنت مزاحم امرأۃ فرعون ، و خدیجۃ بنت خویلد و فاطمۃ بنت محمد ﷺ)
کامل مردتو بہت سارے ہیں مگر کامل عورتیں مریم بنت عمران ،فرعون کی زوجہ آسیہ بنت مزاحم، خدیجہ بنت خویلد اور فاطمہ بنت محمد ؐ کے علاوہ کوئی نہیں ہے۔(۲۲)
نیز آپ ؐنے فرمایا :
(إنما فاطمۃ شجنۃ منی ، یقبضنی ما یقبضھا ، و یبسطنی ما یبسطھا ۔ و إن الأنساب یوم القیامۃ تنقطع غیر نسبی و سببی و صھری ...)
فاطمہ میری ایک شاخ ہے اور جو چیز اسے خوش کرتی ہے اسی سے مجھے بھی خوشی ہوتی ہے(۲۳) اور قیامت کے دن میرے نسب وسبب اور دامادی کے علاوہ تمام نسب ایک دوسرے سے الگ ہوجائیں گے۔(۲۴)
ایک دن پیغمبر اسلام ؐ جناب فاطمہؐ کا ہاتھ پکڑے ہوئے نکلے اور آپ ؐ نے فرمایا:(من عرف ھذہ فقد عرفھا ، و من لم یعرفھا فھی فاطمۃ بنت محمد ، و ھی بضعۃ منی ، و ھی قلبی الذی بین جنبی ؛ فمن آذاھا فقد آذانی ، و من آذانی فقد آذی اﷲ )
جو اسے جانتا ہے وہ تو اسے جانتا ہی ہے اور جو نہیں جانتا وہ اسے پہچان لے کہ یہ فاطمہ بنت محمد ہے اور یہ میرا ٹکڑا ہے اور یہ میرے دونوں پہلووں کے در میان دھڑکنے والا میرا دل ہے لہذا جس نے اسے ستایا اس نے مجھے تکلیف دی اور جس نے مجھے تکلیف پہنچائی اس نے اللہ کو تکلیف دی ہے۔ (۲۵)
نیز فرمایا: (فاطمۃ أعز البریّتۃ علیّ)
فاطمہ ؐ تمام مخلوقات میں مجھے سب سے زیادہ عزیز ہیں۔(۲۶)
آپ کی عصمت کی طرف موجود ان اشاروں کے بعد ہمارے لئے ان احادیث کی تفسیر کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے بلکہ یہ احادیث توآپ ؐ کی عصمت کے ساتھ اس بات کی شاہد ہیں کہ آپ صرف خدا کے لئے ناراض ہوتی ہیں اور خدا کے لئے راضی اور خوش ہوتی ہیں۔

حوالہ جات
۱۔ یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب پیغمبرؐ کے فرزند عبد اللہ کہ جو خدیجہ کے بطن سے تھے ان کا انتقال ہو گیا تھا اور پیغمبرؐ کی اولاد ذکور میں سے کوئی باقی نہیں بچا تھا۔
۲۔ تفسیر کبیر ،ج۳۲،ص۱۳۲۔
۳۔تاریخ بغداد : ج ۱ ،ص ۳۱۶ ، ریاض النضرہ : ج۲ ، ص ۱۶۸ ، کنز العمال: ج ۱۱ ح ،۳۲۸۹۲۔
۴۔صحیح بخاری : کتاب صلح ، صحیح تر مذی : ج ۵ ، ح ۳۷۷۳ ،ط احیاء تراث ،مسند احمد : ج۵ ، ص ۴۴ تاریخ بغداد: ج۳ ، ص ۲۱۵ ، کنز العمال: ج ۱۲ ،۱۳ احادیث ۳۴۳۰۴،۳۴۳۰۱ ، ۳۷۶۵۴۔
۵۔سورۂ دہر یا ھل اتیٰ یا انسان۔
۶۔ملاحظہ فرمایئے :کشاف مولفہ زمخشری ،تفسیر کبیر مولفہ ثعلبی ،اسد الغابہ ج۵ ص۵۳۰اور تفسیر فخر رازی۔
۷۔سورۂ احزاب ۳۳۔ 
۸۔ صحیح مسلم :کتاب فضائل صحابہ ومستدرک صحیحین،۳؍۱۴۷،الدر المنثور،ذیل تفسیر آیۂ تطہیر،تفسیر طبری۲۲؍۵،صحیح ترمذی ۵ حدیث۳۷۸۷،مسند احمد ۶؍۲۹۲و۳۰۴،اسد الغابہ ۴؍۲۹،تہذیب التہذیب۲؍۲۵۸۔
۹۔الکلمۃ الغراء فی تفضیل الزہراص۲۰۰،علامہ سید عبدالحسین شرف الدین فرماتے ہیں:اسے امام احمد نے اپنی صحیح کی ج۳ ص ۲۵۹ ،پر اور حاکم نے بھی نقل کیا ہے نیز اسے ترمذی نے صحیح اور ابن ابی شبیہ،ابن حریر،ابن منذر ،ابن مردویہ اور طبرانی و غیرہ نے ((حسن))قرار دیا ہے ۔ 
۱۰۔الکلمۃ الغراء فی تفضیل الزہرا،ص ۱۰۰۔ 
۱۱۔حلیۃ الاولیاء:ج۳، ص۲۰۱، تفسیر الطبری: ج۲۵،ص ۲۵ ۔۱۶۔ ۱۷ ، تفسیر المنثور سورۂ شوریٰ کی تیسری آیۃ کی تفسیر ، الصوائق المحرقۃ: ۲۶۱و اسد الغایۃ :ج۵،ص۳۶۷۔ 
۱۲۔فضائل الخمسہ بن الصحاح الستہ ج۱ ص۳۰۷۔
۱۳۔الکشاف فی تفسیرا الآیہ ، و تفسیر الکبیر : فخر رازی ، اور الدر المنثور : اور ذخائرلعقبی :۳۵ ٰ الغدیر :ج ۳ ۔علامہ امینی نے اس آیت کے شان نزول کے بارے میں کہ یہ اہل بیت علیہم السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے ۴۵ ماخذ ذکر کئے ہیں۔
۱۴۔الکلمۃ الغراء فی تفضیل الزہرا:ا۸ا۔ 
۱۵۔علامہ سید عبد الحسین شرف الدین کہتے ہیں:اس واقعہ کو تمام محدثین اور مورخین نے دسویں ہجری کے واقعات کی تفسیر کے ذیل میں تحریر کیا ہے اور یہی مباہلہ کا سال ہے اسی طرح ملاحظہ کیجئے صحیح مسلم کتاب فضائل صحابہ ،کشاف زمخشری سورۂ آل عمران کی ۶۱ ویں آیت ۔
 ۱۶۔تفسیر الکبیر : آیۃ کی تفسیر کے ذیل میں، الصواعق المحرقہ : ۲۳۸۔
۱۷۔ کنز العمال :ج ۱۲، ص ۱۱۱، مستدرک صحیحین :ج ۳، ص ۱۵۴ ، میزان الاعتدال :ج ۱،ص۵۳۵۔ 
۱۸۔صواعق المحرقۃ : ۲۸۹، الامامۃ والسیاسۃ :ص ۳۱ ،کنز العمال : ج۱۲ ، ص۱۱۱، خصائص النسائی: ۳۵ ، صحیح مسلم : کتاب فضائل الصحابۃ۔
۱۹۔ فرائد السمطین :ج۲ ،ص۶۶۔
۲۰۔المستدرک صحیحین : ج۳ ،ص۱۷۰، وابو نعیم فی حلیۃ الاولیاء : ج۲،ص ۳۹،والطحاوی فی مشکل الآثار : ج ۱ ،ص ۴۸ ،وشرح نہج البلاغہ لابن ابی الحدید : ج۹ ،ص ۱۹۳ ، والعوالم :ج۱۱ ،ص ۱۴۱۔ ۱۴۶۔
۲۱۔فاطمہ الزہراء وتر فی غمد: مقدمہ از قلم سید موسیٰ صدر۔
۲۲۔رواہ صاحب الفصول المہمہ ۲۷، تفسیر الوصول :ج۲ ،ص۱۵۹ ، شرح ثلاثیات مسند احمد :ج ۲ ،ص ۵۱۱ ۔
۲۳۔الشجنۃ : اشعبۃ من کل شیء اشجنھہ کالغصن یکون من الشجرۃ . مستدرک الحاکم :ج۳ ،ص ۱۵۴ ، کنز العمال :ج ۱۲، ص ۱۱۱ ح ، ۳۴۲۴۰ ۔
۲۴۔مسند احمد : ج۴، ص ۳۲۳ ۔ ۳۳۲ ، والمستدرک :ج ۳ ،ص ۱۵۴ ۔۱۵۹۔
۲۵۔فصول المہمہ : ۱۴۴ ، و رواہ فی کتاب المختصر عن تفسیر الثعلبی :۱۲۳۔
۲۶۔امالی الطوسی : مجلس ۱ ح ۳۰ ،والمختصر :۱۳۶۔


ماخذ: منارہ ہدایت ج ۳

Who is "ZAFER JINN" (r.a)

Listen Noha About "Zafer Jin (r.a)"

Jinns relations with karbala and Ahlulbayt.......The meeting of Leader of Jinnat ZAFER JINN (r.a) with the Poet of AHL-AL-BAIT (a.s)....MIR ANEES...Conversation of Zafer Jinn with IMAM HUSSAIN (a.s) in KERBALA.....and many more.....
(Beautiful & informative post, must read)

Those of you who knows Urdu must be familiar with Mir Anees. He was the greates poet in the history of Urdu language a few centuries ago. If one reads his poetry he/she feel as if Mir Anees is sitting in Karbala and writting. Here's how attained such percise knowledge.

Mir Anees used to teach in a masjid/madressa. Little children would come to his classes and learn Arabic/Quran/Deen etc. One day a young boy came to class who Mir Anees had never seen before. Some thing seemed different about him from the first moment. His homework was always perfect. The boy was very hard working and very unusual. One day as the children were studying and Mir Anees was thinking of picking a pen (or something of that sort) from a window sil. As he was thinking the same young boy stood up and grabbed it and gave it to his teacher. (Theres conflict among the story here as to what he did. Some scholars say that the boy performed some very heavy duty physical work that attarcted the attention of Mir Anees) What ever the case Mir Anees was now sure that the boy was hiding something. So when all the students were about to leave. He ordered the young boy to stay after school. When the masjid was empty and there was no one except the boy and Mir Anees. Mir Anees aske him who are you? Where are you from? You have unhaman characteristics...The boy said I am the grandson of Zafar Jinn. Thus I am a Jinn. My family has sent me to gain knowledge from you so I can recite majalis. And help my famil remember the martyrdom of Imam Husain . My grand father is the one who replied to Imam's question for help. So Mir Anees asked him about his granfather? He replied ever since the tragedy of Karbala my grand father roams in the mountains and had been crying, weeping, for he was unable to help the Imam and saw him get sluaghtered helplessly. The teacher asked his student to ask Zafer to come to the mosque. The young Boy promised him to bring his grand father at night.

Mir Anees was in the masjid alone. A candle was lighted beside him and he was waitting for Zafer jinn. Shortly a shadow appeared in the court yard of the mosque. And soon he saw a very old person entering. He was so old that his eye browse were hanging and blocking his eyes. THey exchanged greetings and Mir Anees asked him to tell the sotry of Karbala from the start.

There is a battle known as the Battle of Bair-Al-Alam. In which Imam Ali fought the Jinns in a deep well to get water. In it thousands of Jinns were killed and many more turned muslims. The evil leader was also killed. I Zafer was chosen the new muslim leader of these Muslim Jinns.

Zafer Jinn was in Karbala.........

When Imam Hussein(as) was alone in the plain of Karbala..after all his Children, brother, nephew and friends were martryed ..he said this famous line "Hal Min Nasirin Yansurna" (Is there among you a friend to help us)..not only once but he said it to 4 corner of the world.

When Imam Zayn Al Abidin(as) heard his father, he quicky raised himself from his bed and said "Labbayk Ya Imam" ( I am comming O Imam, I am coming)..but he was too sick and weak, and Sayyida Zaynab(as) went and urge him to lie back on bed.

The enemies was firm to kill him. No one answered his plea.

and the narations continue with this ..

"When all the angels from heaven heard Master of Paradise, they beg permission from Almighty God to help him. Rows and rows of angels came to help him, just like when His Grandfather Holy Prophet(saw) prayed in Badr. A group of Jinn also heard this plea and they proceed to Karbala. They came and all of them stand to help the Imam"

An army of mankind had surrounded a tent. A lone Man (Imam hussain) stood in the middle giving speeches. They realized who it(as) was and quickly went to Jafar Jinn(ra).

Zafar jinn (ra) sat on his throne, the jinns alerted him, he took off his ornaments and said:

Get ready, we must reach my beloved Master(as). Oh Allah(swt) please ensure that we arrive in time. Take our swords and let us make haste!!!

The army approached the Euphrates and Zafar(ra) said:

With care, this is the body of My Master Ali(sa) son. Oh tragedy, what has befallen the kindred of Ali(sa)?

Then Jafar(ra) saw the Prophets(as)/Messengers(sa), Imams(sa) and close ones of Allah(swt). He saw Imam Hussain(sa) and had a lengthy conversation(Not going to say what). Jafar(ra) was taken with rage and told his army to attack the evil force.

The Imam(sa) stopped them and said: I have the power but this is the time of test. Jafar(ra), my Father(as)'s companion, it is unfair that you fight them whilst they can't see you. They are my Grandfathers(saws) ummah. Then Jafar(ra) went back having been ordered to do mourning and Majlis.


Jafar(ra) went back, put black in his kingdom and cried. His Mother found out and asked what had happened. She sent him back and told him to help the children in the route of Sham. Then he was sent away because Hazrat Syeda Fatima Al-Zahra(sa) was to come to be the companion of the ladies of Ahlulbayt (as) .....

جوان جوڑوں کو رہبر معظم انقلاب کی ضروری ہدایات

میں جوانوں کو سفارش کرتا ہوں کہ اپنی بیویوں سے محبت کریں، ان کے ساتھ وفادار رہیں اور خود کو ایک دوسرے کی تقدیر میں شریک سمجھیں۔

 مشھد مقدس میں ’’ ہمسفر تا بہشت‘‘ کے عنوان سے انجام پائے جانے والے تازہ شادی شدہ جوانوں کے جوڑوں پر مشتمل ایک قومی پروگرام میں رہبر انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ خامنہ ای کا پیغام قرائت کیا گیا۔ اس پیغام کے ایک حصے میں آپ نے بیان کیا: میں جوانوں کو سفارش کرتا ہوں کہ اپنی بیویوں سے محبت کریں، ان کے ساتھ وفادار رہیں اور خود کو ایک دوسرے کی تقدیر میں شریک سمجھیں۔
جوان جوڑوں کی بزم میں رہبر معظم کے قرائت شدہ پیغام کا مکمل ترجمہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

آپ عزیز جوانوں کو ازدواجی زندگی کی شروعات کی مبارک باد پیش کرتا ہوں جو دلوں، جسموں اور تقدیروں کا آپسی بندھن ہے۔ میں سفارش کرتا ہوں کہ اپنی بیویوں سے محبت کریں ان کے ساتھ وفادرای کا ثبوت دیں اور خود کو ایک دوسرے کی تقدیر میں شریک سمجھیں۔ مشترکہ زندگی کے رشتے میں دراڑ ڈالنے سے پرہیز کریں اور چھوٹی چھوٹی باتوں کو نظر انداز کرنے کی کوشش کریں۔
خداوند عالم آپ کو خوشی، خوش قسمتی اور روحانی بلندی عطا فرمائے اور آپ کی زندگی کو نیک، صالح اور سالم اولاد کے ذریعے نورانی اور مزین کرے۔ انشاء اللہ
                                             سید علی خامنہ ای، ۱۱، اپریل،۲۰۱۴

بہادر شوہر کی بہادر زوجہ، بہادر بیٹے کی بہادر ماں ’’ام البنین‘‘

جناب ام البنین ایک بہادر و شجاع ، مستحکم و راسخ ایمان و ایثار اور فداکاری کا بہترین پیکر اور بافضیلت خاتون تھیں آپ کی اولادیں بھی نہایت ہی شجاع وبہادر تھیں لیکن ان کے درمیان حضرت عباس علیہ السلام ایک خاص مقام و مرتبہ کے حامل تھے آپ تمام شہداء تاریخ کے درمیان ستاروں کی طرح چمکتے تھے۔



 تاریخ اسلام کی عظیم المرتبت خواتین میں سے ایک جلیل القدر خاتون حضرت ام البنین سلام اللہ علیہا ہیں جو ہیشہ حضرت امام حسین علیہ السلام کے قاتلوں اور بنی امیہ کے حکمرانوں کی مذمت کیا کرتی تھیں آپ ہمیشہ مجالس عزائے حسینی برپا کرتی تھیں تا کہ شہدای کربلا کا مشن و مقصد ہمیشہ زندہ رہے ۔ اہل بیت علیہم السلام سے عشق و محبت رکھنے والی خواتین ان مجلسوں میں شرکت کرتی تھیں اور مظلوم کربلا پر ہونے والے مصائب و آلام کو یاد کرکے آنسو بہایا کرتی تھیں ۔

حضرت فاطمہ کلابیہ جن کا مشہور و معروف لقب ام البنین تھا۔ حضرت علی علیہ السلام کی شریک حیات اور باب الحوائج حضرت عباس علیہ السلام کی مادر گرامی حضرت ام البنین بے حد مضطرب و بے چین تھیں کہ اتنے میں خبر ملی کہ بشیر حضرت امام سجاد علیہ السلام کے حکم سے مدینہ میں آیا ہے تاکہ لوگوں کو کربلا کے دلسوز واقعے اور اسیران اہل بیت علیہم السلام کی مدینہ واپسی سے مطلع کرے، بشیر مدینے میں منادی سنا رہا تھا کہ اے اہل مدینہ، اہل بیت طاہرین کا لٹا ہوا قافلہ مدینہ آگيا ہے جب یہ آواز حضرت ام البنین کے کانوں سے ٹکرائی تو عصا کے سہارے گھر سے باہر نکلیں اور بشیر سے سوال کیا اے بشیر میرے حسین کی کیا خبر ہے ؟ بشیر نے کہا خدا آپ کو صبر عطا کرے آپ کا فرزند عباس شہید کردیا گیا ام البنین نے دوبارہ سوال کیا اے بشیر میرے حسین کے بارے میں بتاؤ ؟ بشیر نے آپ کے تمام فرزندوں کی شہادت کو ایک ایک کرکے بیان کیا لیکن حضرت ام البنین مسلسل امام حسین علیہ السلام کے بارے میں سوال کررہی تھیں اور کہتی جارہی تھیں اے بشیر میرے تمام فرزند اور جو کچھ بھی آسمان کے نیچے ہے سب میرے حسین پر قربان ہیں اس وقت بشیر نے امام حسین علیہ السلام کی شہادت کی خبر سنائی آپ اس دلخراش خبر کو سن کر لرز گئیں اور کہا : اے بشیر تونے میرے جگر کو ٹکڑے ٹکڑے کردیا آپ نے ایک چیخ ماری اور نالہ و شیون کرنے لگیں ۔
مورخین لکھتے ہیں کہ جناب ام البنین کی امام حسین علیہ السلام سے بے پناہ عشق و محبت ان کے اعلی ایمان اور آپ کی امامت پر کامل اعتقاد کی مستحکم دلیل ہے یہ کہ آپ نے اپنے چار بیٹوں کو اپنے پیشوا و امام کے نام پرقربان کردیا ۔
حضرت ام البنین سلام اللہ علیہا تاریخ اسلام کی ان عظیم خواتین میں سے ہیں جن کے چار فرزندوں نے واقعہ کربلا میں اسلام پر اپنی جانیں نچھاور کیں ام البنین یعنی بچوں کی ماں ،آپ کے چار شجاع و بہادر بیٹے عباس، جعفر، عبد اللہ اور عثمان  تھے حضرت علی بن ابی طالب کے شجاع و بہادر بچے امام حسین علیہ السلام کی نصرت و مدد کرتے ہوئے کربلا میں شہادت کے درجے پر فائز ہوگئے ۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی لاڈلی بیٹی ، حضرت علی علیہ السلام کی شریک حیات حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی شہادت عظمی کو تقریبا پندرہ سال کا عرصہ گذر چکا تھا حضرت علی علیہ السلام نے اپنے  بھائی عقیل کو جو خاندان عرب کے حسب ونسب سے بہت زيادہ واقف تھے اپنے پاس بلایا اور ان سے فرمایا کہ آپ ایک بہادر خاندان سے ایک ایسی خاتون تلاش کریں جس سے بہادر بچے پیدا ہوں ۔
حضرت علی علیہ السلام جانتے تھے کہ سن اکسٹھ ہجری جیسے حساس اور پر آشوب زمانے میں اسلام کے دوام اور قانون و آئین محمدی کے احیاء کے لئے بہت زيادہ ایثار وقربانی کی ضرورت پیش آئے گی خصوصا حضرت علی علیہ السلام اس بات سے بھی باخبر تھے کہ ان کی شہادت کے دوعشروں بعد کربلا کا واقعہ رونما ہوگا لہذا ضرورت تھی کہ ایسے موقع کے لئے ایک ایسا بہادر و جانباز فرزند موجود ہو جو کربلا میں امام حسین کی نصرت و مدد کرے ۔اسی لئے جناب عقیل نے جناب ام البنین کی حضرت علی علیہ السلام سے سفارش کی کیونکہ ان کا خاندان اور قبیلہ " بنی کلاب " عرب کے شجاع و بہادر کے نام سے مشہور تھا۔
جناب عقیل نے حضرت ام البنین کے گھرانے کے بارے میں بتایا کہ پورے عرب میں ان کے آباؤ و اجداد سے زيادہ بہادر کوئی نہ تھا علی علیہ السلام نے اس تجویز کو قبول کرلیا اور عقیل کو رشتہ لے کر جناب ام البنین کے والد کے پاس بھیجا ان کے والد اس مبارک رشتے سے بہت زيادہ خوش ہوئے اور فورا ہی اپنی بیٹی کے پاس گئے اور اس سلسلے میں ان کی مرضی معلوم کرنا چاہی، ام البنین نے اس رشتے کو سربلندی و افتخار سمجھ کر قبول کرلیا اور پھر اس طرح جناب ام البنین اور حضرت علی علیہ السلام رشتہ ازدواج سے منسلک ہوگئے حضرت ام البنین عقل و خرد ، مستحکم ایمان اور بہترین صفات سے مزین تھیں اسی لئے علی علیہ السلام ان کا بہت زیادہ احترام کرتے تھے اور ان کی حرمت کا پاس و لحاظ رکھتے تھے ۔
جناب ام البنین ایک بہادر و شجاع ، مستحکم و راسخ ایمان و ایثار اور فداکاری کا بہترین پیکر اور بافضیلت خاتون تھیں آپ کی اولادیں بھی نہایت ہی شجاع وبہادر تھیں لیکن ان کے درمیان حضرت عباس علیہ السلام ایک خاص مقام و مرتبہ کے حامل تھے آپ تمام شہداء تاریخ  کے درمیان ستاروں کی طرح چمکتے تھے حضرت ام البنین کی تمام تر کوشش یہ تھی کہ جوانان اہل بہشت امام حسن و حسین اور علی و فاطمہ کی دو بیٹیوں زینب و ام کلثوم کی زندگی میں ماں کی کمی کو پورا کردیں اور بچے  اس کمی کا احساس نہ کرسکیں ۔حضرت علی علیہ السلام کے تمام فرزند ایسی شفیق و مہربان ماں کے بابرکت وجود کے ہوتے ہوئے ماں کے ‏غم کو بہت کم یاد کرتے تھے ۔ کیونکہ حضرت ام البنین پیغمبر اسلام کے بچوں کو جو صاحبان فضيلت و کرم تھے انہیں اپنے بچوں پر ہمیشہ مقدم رکھتی تھیں اور اپنے بچوں سے زیادہ ان سے محبت کرتی تھیں اور اس راہ میں ذرہ برابر بھی کوتاہی نہیں کرتی تھیں آپ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بچوں کی حفاظت و محبت کو دینی فریضہ شمار کرتی تھیں ۔چونکہ خداوندعالم نے اپنی معجز نما کتاب قرآن مجید میں تمام لوگوں کو حکم دیا ہے کہ ان سے محبت کریں ۔
روایت میں ہے کہ جس دن حضرت ام البنین رخصت ہوکر حضرت علی علیہ السلام کے بیت الشرف تشریف لائیں اس دن امام حسن وامام حسین علیہم السلام بستر بیماری پر تھے حضرت علی علیہ السلام کی شریک حیات نے جیسے ہی گھر میں قدم رکھا دونوں بچوں کے سراہنے  پہنچ گئیں اور مہربان ماں کی طرح ان کی دلجوئی کرنے لگیں جیسا کہ تاریخ کی اہم کتابوں میں آیا ہے کہ حضرت ام البنین نے ازدواجی زندگی شروع ہونے کے فورا بعد ہی حضرت علی علیہ السلام سے درخواست کی کہ ہمیں ہمارے اصلی نام فاطمہ کے بجائے ام البنین کے نام سے پکاریں تاکہ دونوں شہزادوں حسن و حسین کواس نام کی وجہ سےاپنی مادرگرامی فاطمہ زہرا کی یاد نہ آئے اور انہیں یاد کرکے ان کے دل مضمحل نہ ہوں۔
آپ حضرت زہرا کے فرزندوں کو بہت زیادہ عزيز رکھتی تھیں اور خود کو ان کی خدمت کے لئے وقف کردیا تھا البتہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرزندوں کے ساتھ ان کی بے لوث محبتیں اور ان کے بچوں کی ایثار و قربانی امام حسین علیہ السلام کی راہ میں کارگر ثابت ہوئیں اور تاريخ میں آج  بھی ان  کے ایثار و قربانی کا ذکر موجود ہے ۔پیغمبر اسلام  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اہل بیت حضرت ام البنین کا بہت زيادہ احترام کرتے تھے اور ہمیشہ ان کے ایثار و قربانی کا ذکر کرتے تھے ۔حضرت زینب سلام اللہ علیہا واقعہ کربلا کے بعد جب مدینہ پہنچیں تو حضرت ام البنین کی خدمت میں تشریف لائیں اور آپ کے چاروں فرزندوں کی المناک شہادت کی تعزیت پیش کی اور جب بھی آپ کو وقت ملتا آپ کی خدمت میں تشریف لاتی تھیں۔
حضرت ام البنین سلام اللہ علیہا کی ایک خاص صفت یہ تھی کہ آپ زمانے کے حالات پر خاص نظر رکھتی تھیں حضرت ام البنین بنی امیہ کے ظالم و ستمگر حاکموں کی جارحیت کی جنہوں نے امام حسین علیہ السلام اور ان کے باوفا ساتھیوں کو شہید کیا تھا ہمیشہ مذمت کیا کرتی تھیں اور ہمیشہ مجالس عزا منعقد کیا کرتی تھیں تاکہ کربلا کے شہیدوں کا ذکر ہمیشہ زندہ رہے اور ان مجلسوں میں خاندان عصمت و طہارت کی عورتیں شریک ہوکر کربلا کے شہیدوں پر آنسو بہاتی تھیں آپ اپنی تقریروں ، مرثیوں اور اشعار کے ذریعے شہیدان کربلا کی مظلومیت کو کائنات کے ہر فرد تک پہنچانا چاہتی تھیں ۔
حضرت علی علیہ السلام کی شریک حیات جناب ام البنین کی عظمت و رفعت مسلمانوں کے درمیان مسلم تھی کیونکہ ہرایک کے ذہن و دماغ میں یہ بات موجود تھی کہ خدا کے نزدیک آپ کی بہت زيادہ عظمت و منزلت ہے آپ نے اپنے جگر گوشوں کو کمال اخلاص کے ساتھ خدا اور اسلام کی راہ میں قربان کیا تھا۔
بالآخر ایثار و قربانی اور کمال اخلاص و ایمان کی دولت سے سرشار عظیم خاتون ام البنین کا ستر ہجری میں انتقال ہوگیا البتہ بعض مورخین نے آپ کی وفات کی تاریخ تیرہ جمادی الثانی سن چونسٹھ ہجری تحریر کیا ہے ۔آپ کی قبرمبارک جنت البقیع میں حضرت امام حسن علیہ السلام کی قبر کے پاس موجود ہے جو آج  بھی نجدیوں کے ظلم کی داستان چیخ چیخ کر ان کے ظلم و بربریت کا اعلان کررہی ہے۔

Maa Umm-ul-Baneen (Sa) Noha Mir Hassan Mir

سعودی عرب کی 15 سالہ لڑکی کا 1000 دھشتگردوں کے ساتھ جہاد النکاح!



عایشہ البکریٰ‘‘ سعودی عرب کی وہ ۱۵ سالہ جوان لڑکی ہے جو شام میں جہاد النکاح کرنے کے بعد ریاض ایئر پورٹ پر پہنچی اور نامہ نگاروں سے اپنے جہاد کے سلسلے میں گفتگو کی۔
 سعودی عرب کی ۱۵ سالہ لڑکی جو شام میں جہاد النکاح کا فریضہ انجام دینے کے بعد سعودی عرب واپس گئی نے قابل توجہ باتیں اگلی ہیں.
عربی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق، ’’عایشہ البکریٰ‘‘ سعودی عرب کی وہ ۱۵ سالہ جوان لڑکی ہے جو شام میں جہاد النکاح کرنے کے بعد ریاض ایئر پورٹ پر پہنچی اور نامہ نگاروں سے اپنے جہاد کے سلسلے میں گفتگو کی۔
اس نے عربی میڈیا سے گفتگو میں کہا: میں وہابی مفتی ’’محمد العریفی‘‘ کے فتوے کو سننے کے بعد جو انہوں نے شام میں جہاد النکاح کے سلسلے میں دیا ہے شام گئی اور جہاد کا فریضہ انجام دینے کے بعد اب واپس آئی ہوں۔
سعودی عرب کی اس جوان لڑکی نے مزید کہا: میں نے شام میں ایک ہزار سے زیادہ مجاہدین کے ساتھ نزدیکی کی جو زیادہ تر الجزائر، پاکستان، سومالیہ، عراق اور ایتھوپیا کے تھے۔
اس نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ وہ اب حاملہ ہے اور اسے معلوم نہیں اس کے بچے کا باپ کون ہے کہا: البتہ اس بات کا احتمال قوی ہے کہ میرے بچے کا باپ جبہۃ النصرہ کا کمانڈر ہو گا۔ اس لیے کہ وہ مجھے اپنے ساتھ اسرائیل لے کر گیا تھا اور وہاں اس نے کئی بار میرے ساتھ جماع کیا اس نے وہاں پر اسرائیلی حکام سے ملاقات کی اور ان سے اسلحہ، انفارمیشنز اور شامی فوج کی نقل و حرکت کی سیٹلائٹ کے ذریعے لی گئی تصاویر حاصل کیں۔
عائشہ نے دھشتگردوں کے جذبات کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا: میرا یہ خیال ہے کہ النصرہ، القاعدہ، اسرائیل، قطر اور دیگر ممالک کے افراد کے ذریعے تشکیل پائے ٹولے شام میں اب شکست سے دوچار ہیں۔ اس لیے کہ بہت سارے مجاہدین شامی فوج سے ہراساں ہیں اور بہت سارے بھاگ گئے ہیں۔
اس نے اپنے انٹرویوں میں اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ اس نے کئی بار دھشتگردوں کے ایسے جنازوں کو دیکھا ہے جو مختلف علاقوں کے کوڑے دانوں میں پڑے ہوئے تھے۔

وزیر اعظم نواز شرف کا بھتیجے کی شادی کی تقریب میں شرکت کیلئے آنے والے سعودی شہزاد ے کے اعزاز میں ظہرانہ،سعودی شہزادے نے دلہا اور دلہن کو شاہی خاندان کی طرف سے سونے کی شمشیر اور ہیروں کے سیٹ کا تحفہ پیش کیا



وزیر اعظم محمد نواز شریف نے اپنے بھتیجے عزیز عباس کی شادی کی تقریب میں شرکت کیلئے آئے ہوئے سعودی شہزادے منصور نصیر بن عبد العزیز کے اعزاز میں ظہرانہ دیا ،سعودی شہزادے نے دلہا اور دلہن کو شاہی خاندان کی طرف سے سونے کی شمشیر اور ہیروں کے سیٹ کا تحفہ دیا ۔نجی ٹی وی کے مطابق سعودی شہزادے کی ہفتہ کے روز لاہور آمد پر وزیر اعظم کے صاحبزادے حسین نواز نے استقبال کیا تھا۔ گزشتہ روز وزیر اعظم محمد نواز شریف کی طرف سے سعودی شہزادے کے اعزاز میں ظہرانہ دیا گیا ۔ اس دوران سعودی شہزاد ے نے شاہی خاندان کی طرف سے دلہا اور دلہن کو سونے کی شمشیر اور ہیروں کا سیٹ تحفے میں دیا جس پر وزیر اعظم نے ان کا شکریہ ادا کیا 

سعودی عرب میں ہندوستانی مزدور کا سر عام قتل+ تصاویر



WATCH VIDEO


سعودی عرب کے دار الحکومت ریاض کے علاقے سویداء میں ایک سعودی باشندے نے ہندوستانی مزدور کو کھلے عام سڑک پر اپنے تشدد کا نشانہ بنا کر ہلاک کر دیا
 سعودی عرب کے دار الحکومت ریاض کے علاقے سویداء میں ایک سعودی باشندے نے ہندوستانی مزدور کو دن دھاڑے کھلے عام سڑک پر اپنے تشدد کا نشانہ بنا کر ہلاک کر دیا۔
اطراف میں موجود لوگ اس ظالم سعودی سے غریب الوطن مزدور کی جان بچانے کے بجائے کھڑے ہو کر اس کر تماشا دیکھنے اور اپنے اپنے موبائلوں میں اس دردناک حادثے کی ویڈیو بنا کر سوشل نٹ ورک پر شائع کرنے میں مصروف رہے۔
اس رپورٹ کے مطابق یہ سعودی درندے نے منشیات کا استعمال کر کے دکان پر بیٹھے اکیلے مزدور کو پا کر اس پر حملہ کردیا اور چاقو سے اس کی جان لینا چاہی جب کہ وہ بھاگ کر دکان سے باہر سڑک کی طرف دوڑا لیکن خود کو قاتل سے بچانے میں کامیاب نہ ہو سکا اور سڑک پر کھے عام اس وحشی قاتل کے حملوں کا نشانہ بن گیا۔

Main Haideri Deewana (SUFIYANA KALAM)

امریکہ نے ایک بار پھر شام میں تکفیری دہشتگردوں کی آپریشنل کمانڈ کی ذمہ داری سنبھال لی




شام کے ذرائع نے کہا ہے کہ امریکہ نے ایک بار پھر شام میں تکفیری دہشتگردوں کی آپریشنل کمانڈ کی ذمہ داری سنبھال لی ہے۔

  شام کے اخبار الثورۃ کے مطابق باراک اوبامہ کی انتظامیہ نے نئے منصوبے کے تحت تکفیری دہشتگردوں کی آپریشنل کمانڈ سنبھال لی ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ نے دہشتگردوں کی فوجی اور سیاسی حمایت شروع کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ واشنگٹن پوسٹ نے لکھا ہے کہ امریکی وزیر خارجہ نے شام کے خلاف امریکہ کی پالیسیوں کے ناکام ہونے کا اعتراف کرتے ہوئے کہا ہے کہ واشنگٹن ایک بار پھر شام میں سرگرم عمل مسلح گروہوں کو ٹریننگ دینے کے ساتھ ساتھ فوجی حمایت بھی کرے گا۔ واضح رہے سعودی عرب صیہونی حکومت ترکی اور قطر امریکہ کی سربراہی میں شام میں بشار اسد کی حکومت گرا کر مغرب نواز حکومت لانا چاہتے ہیں۔