رحلت حضرت ابوطالب علیہ السلام


26 رجب المرجب روایت کے مطابق مومن قریش، رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے ناصر و مددگار اور حضرت امیر المومنین علیہ السلام کے پدر بزرگوار حضرت ابو طالب علیہ السلام کی رحلت کا دن ہے، آپ کے ایمان کا درجہ اتنا بلند ہے کہ حضرت امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:

فرمودند :«والله إن ایمان أبی طالب «سلام الله عليه» لو وضع فی کفه میزان و ‍‍‍‍‍‍ إيمان هذاالخلق فی کفه میزان لرجّح ایمان أبی طالب علی ایمانهم۱.»

”خدا کی قسم! اگر حضرت ابو طالب [علیہ السلام] کا ایمان ترازو کے ایک پلڑے؟؟ میں رکھ دیا جائے اور دوسری طرف تمام لوگوں کا ایمان رکھ دیا جائے تو حضرت ابو طالب علیہ السلام کا ایمان لوگوں کے ایمان پر بھاری ہے“۔

اگرچہ آپ اپنے ایمان کو مشرکین قریش سے مخفی رکھتے تھے تاکہ حضرت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی حمایت اور آپ کا دفاع کرتے رھیں، اس کے باوجود شیعہ و سنی کتابوں میں اسلام و نبوت پر آپ کے ایمان کے حتمی شواہد و قرائن نقل ہوئے ہیں:، جن میں سے حضرت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی شان میں جناب ابو طالب علیہ السلام کے یہ اشعار ہیں:

« حمیتُ الرسولَ رسولَ الإله ببیض تلألأ مثلَ البروق
أذبّ و أحمـی رسول الإلــه حمـایة عَمّ علیه شفـوق۲.»

”میں نے حمایت کی رسول کی ، رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی، اس چمکتی ہوئی اور براق شمشیر کے ذریعہ“۔

”میں دفاع اور حمایت کرتا ہوں رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کا ، ایسے چچا کی حمایت جو اس پر بہت زیادہ مہربان ہے“۔

جناب ابوطالب کی عظمت کا یہ عالم ہے کہ حضرت امیر المومنین علیہ السلام آپ کے بارے میں فرماتے ہیں:

«والذی بعث محمداً «صلی الله علیه وآله» بالحق نبیاً ، لو شفع أبی فی کل مُذنب علی وجه الأرض لشفعه الله فیهم۳ .

”قسم اس خدا کی جس نے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کو حقیقت میں نبوت کے لئے منتخب کیا اگر میرے پدر گرامی زمین پر رہنے والے ہر گناہگار انسان کی شفاعت کریں تو بے شک خداوندعالم ان کی شفاعت قبول کرے گا“۔

حضرت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اپنے شفیق اور مہربان چچا کی رحلت پر بہت زیادہ غمگین ہوئے یہاں تک کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے آپ کی اور جناب خدیجہ سلام اللہ علیہا کی وفات کے سال کا نام ”عام الحزن“ [یعنی غم و اندوہ کا سال] رکھ دیا۔

آپ کی قبر مطہر مکہ معظمہ میں قبرستان ابوطالب ”حجون“ میں ہے ، حاجیوں کے لئے سزاوار ہے کہ جب حج کے لئے جائیں تو آپ کی قبر کی زیارت ضرور کریں جو کہ جناب خدیجہ سلام اللہ علیہا اور حضرت عبد المطلب کی قبر کے پاس ہے۔