شمالی وزیرستان کو 6 ہفتوں میں دہشت گردوں سے پاک کردیا جائےگا

پاکستان کے فوجی حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقہ شمالی وزیرستان میں آپریشن کی صورت میں علاقے کو 6 ہفتوں میں طالبان دہشت گردوں سے پاک کردیا جائے گا۔ 




 پاکستان کے فوجی حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقہ شمالی وزیرستان میں آپریشن کی صورت میں علاقے کو 6 ہفتوں میں طالبان دہشت گردوں سے پاک کردیا جائے گا۔ عسکری حکام کے مطابقفوج طالبان دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے اور شمالی وزیرستان میں سوات طرز کا آپریشن کر کے علاقے کو 6 ہفتوں میں کلیئر کردیا جائے گا، عسکری حکام نے اس بات پر زور دیا ہے کہ شمالی وزیرستان میں چھپے دہشت گردوں کے تمام گروپوں کے خلاف آپریشن ہوگا اور طالبان کو انہی کی زبان میں جواب دیا جائے گا۔

دنیا کی سخت ترین مشکل کے حل کے لیے امام رضا علیہ السلام سے منقول نماز

ائمہ اطہار(ع) کے دستورات میں سے ایک دستور یہ ہے کہ جب انسان دنیا کی کسی مشکل میں گرفتار ہو جائے تو خداوند عالم سے متوسل ہو اور اس سے مشکل کے حل کے لیے دعا کرے۔ 

 دنیا کی سخت ترین مشکل کے حل کے لیے امام رضا علیہ السلام سے منقول نمازائمہ اطہار(ع) کے دستورات میں سے ایک دستور یہ ہے کہ جب انسان دنیا کی کسی مشکل میں گرفتار ہو جائے تو خداوند عالم سے متوسل ہو اور اس سے مشکل کے حل کے لیے دعا کرے۔ توسل کا ایک راستہ نماز ہے جس کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے۔
اس سلسلے میں امام رضا علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا: جب تمہیں کوئی سخت پریشانی لاحق ہو تو دو رکعت نماز ادا کرو جس کی پہلی رکعت میں سورہ فاتحہ اور آیت الکرسی اور دوسری رکعت میں سورہ فاتحہ اور سورہ قدر پڑھو۔ اس کے بعد قرآن کریم سر پر رکھ کر دس بار کہو: «اَللهُمَ بِحَقّ مَن اَرسَلتَهُ اِلی خَلقِکَ وَ بِحَقِّ کُلِّ آیَةٍ وَ بِحَقّ کُلَّ مَن مَدَحتَهُ فیهِ عَلَیکَ وَ بِحَقِکَ عَلَیهِ وَ لاتَعرِفُ اَحَدا اَعرَفُ بِحَقِکَ مِنک» پھر دس بار کہو «یا سَیِدی یا الله» دس بار «بِحَقِ مُحَمَدِ» دس بار «بِحَقِ عَلیٍ» دس بار «بِحَقِ فاطمة» دس بار «بِحَقِ الحَسَن» دس بار «بِحَقِ الحُسین» اسی طرح دس دس بار تمام ائمہ اطہار کے نام لے کر ان کا واسطہ دو اور خدا سے دعا مانگو۔ بیشک تم اپنی جگہ سے اٹھو گے بھی نہیں کہ تمہاری حاجت پوری ہو جائے گی۔ انشاء اللہ۔
دوسری جگہ پھر حضرت امام رضا علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ نے ایک ایسے شخص کے جواب میں فرمایا جو مشکلات میں گرا ہوا تھا: دو رکعت نماز پڑھو اور ہر رکعت میں حمد کے بعد تیرہ مرتبہ سورہ قدر پڑھو۔ جب نماز سے فارغ ہو جاو تو سجدہ میں جاو اور یہ دعا پڑھو:  «اَللهُمّ یا فارِجَ الهَمّ وَ کاشِفَ الغَمّ وَ مُجیبَ دَعوَة المُضطَرّین وَ رَحمنَ الدّنیا وَ رَحیمَ الآخِرَة صَلّ عَلی مُحَمد وَ آل مُحَمد وَ ارحَمنی رَحمَة تُطفِئ بِها عَنّی غَضَبَکَ وَ سَخَطَکَ وَ تُغنِیَنی بِها غَمّن سِواک» اس کے بعد پیشانی کے دائیں حصے کو زمین پر رکھ کر کہو «یا مُذِلّ کُلّ جَبّار عَنید وَ یا مُعِزّ کُلّ ذَلیلِ وَ حَقّکَ قَد بَلَغَ المَجهُودُ مِنّی فی اَمرٍ کَذا فَفَرّج عَنّی» پھر بائیں حصے کو زمین پر رکھ کر وہی دعا پڑھو پھر سجدے کی حالت اختیار کرو اور وہی دعا پڑھو۔ انشاء اللہ تمہاری مشکل آسان ہو جائے گی اور تمہاری حاجت روا ہو جائے گی۔

سعودی عرب میں 30 ہزار پاکستانی فوجی تعینات کرنے کی درخواست

سعودی عرب کے ولیعہد نے اپنے پاکستان کے دورے کے دوران پاکستانی حکام سے سعودی عرب میں 30 ہزار پاکستانی فوجی تعینات کرنے کی درخواست کی ہے۔ 

سعودی عرب میں 30 ہزار پاکستانی فوجی تعینات کرنے کی درخواست
 سعودی عرب کے ولیعہد نے اپنے پاکستان کے دورے کے دوران پاکستانی حکام سے  سعودی عرب میں 30 ہزار پاکستانی فوجی تعینات کرنے کی درخواست کی ہے۔ سعودی عرب  کے ولیعہد نے پاکستان کی موجودہ حکومت  سے بڑے پیمانے پر ہتھیار خریدنے اور جنرل ضیاء اور جنرل پرویز مشرف کے دور میں ہونے والے معاہدوں پر عملدرآمد کرنے کی درخواست بھی کی ہے ۔ پاکستانی ذرائع کے مطابق پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف پر سعودی عرب کے شہزادوں کے بڑے بڑے احسانات ہیں جن میں سب سے بڑا احسان یہ ہے کہ سعودی عرب نے نواز شریف کو پرویز مشرف سے بچایا  کر اسےسعودی عرب میں پناہ دی اور اب وہ احسان کا بدلہ احسان کے فارمولے کے تحت پاکستانی حکومت سے 30 ہزارفوجی اہلکار اور فوجی ساز و سامان خریدنے اور طالبان کے ساتھ مذاکرات ورحم و بخشش کی  درخواستیں لیکر پاکستان کے دوروں پر دورے کررہے ہیں۔

"ویلنٹائن ایک افسانہ" معاشرتی اخلاق کی تباہی کی سازش

ان دنوں ویلنٹائن کے پس پردہ خاندان اور معاشرے کی بنیادیں اکھاڑنے، ازدواجی رشتے سے ممانعت اور شریک حیات کے بجائے دوست (جی ایف اور بی ایف) کے انتخاب کے لئے تشہیری مہم چلائی جارہی ہے اور اب تو مسلم معاشرے بھی اس سے محفوظ نہيں ہیں۔ 

"ویلنٹائن ایک افسانہ" معاشرتی اخلاق کی تباہی کی سازش

ویلنٹائن ایک مغربی جشن اور ایک درآمد شدہ ثقافت کا نام ہے جو کچھ عرصے سے مسلم ممالک کے نوجوان طبقے میں بھی رائج ہوچکی ہے۔ 
14 فروری وہ دن ہے جس دن مغربی ممالک کے ساتھ ساتھ اب مسلم ممالک میں بھی بعض رسوم بپا کی جاتی ہیں اور تحفے تحائف کا تبادلہ ہوتا ہے، محبت کا اظہار ہوتا ہے نامحرموں کے ساتھ؛ مغربی ثقافت کی زد میں آنے والے نوجوان ایک دوسرے کو (ہر کوئی جنس مخالف کو) تحائف دینےکے ساتھ ساتھ عشق و محبت کا اظہار کرتے ہیں اور بےحیائی کے علمبردار سڑکوں پر بےحیائی کی نمائش کا پرچار کرتے ہیں تا کہ اس طرح کی دوستیوں کو معاشرتی حیثیت دی جائے۔ 
سوال: ویلنٹائن کی بنیاد اور اس کا پس منظر کیا ہے؟ اور 14 فروری کو کس بنیاد پر ویلنٹائن نامی جشن منایا جاتا ہے؟ 
جواب: اس بےحیائی کے بانی مبانی بھی اور اس کے پیروکار بھی ابھی اس سلسلے میں معتبر معلومات پیش کرنے سے عاجز اور بےبس ہیں اور سب اس دن کے لئے ایک بےمعنی سا افسانہ پیش کرتے ہیں جو بالکل جعلی اور غیر مصدقہ ہے۔ 
دلچسپ امر یہ ہے کہ ہمارے بہت سے نوجوان بھی اس جعلی افسانے کی حقیقت سے آگہی کے بغیر ہی اس درآمد شدہ افسانے کے پیروکار بن گئے ہیں۔ 

ویلنٹائن کا افسانہ

"کسی زمانے میں!" قدیم روم کا ایک فرمانروا اپنی سپاہ کی آمادگی کے تحفظ کی نیت سے ان کو شادی نہيں کرنے دیتا تھا کیونکہ "شادی ان کی سستی کا سبب ہورہی تھی!"۔ اسی اثناء میں ایک پادری "جس کا نام ویلنٹائن تھا!" لڑکیوں سے سپاہیوں کا عقد جاری کیا کرتا تھا اور جب بادشاہ کو معلوم ہوا تو پادری کو جیل میں ڈال دیا۔ پادری جیل داروغہ کی بیٹی پر عاشق ہوا اور اس کے نام کارڈ لکھتا تھا اور بادشاہ نے اس کو 14 فروری کے دن اس کے اقدامات کی بنا پر پھانسی دے دی اور مغربی دنیا میں اس کو "شہید عشق" کا نام دیا گیا۔ 
تشہیر کا سبب 
اس افسانے کو مغربیوں نے خوب خوب اچھالا اور مغربی ذرائع ابلاغ نے اس کو وسیع سطح پر رواج دیا جس کی وجہ اس کا غیر ثقافتی پہلو ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ بےراہروی اور مادر پدر آزادی، بےعفتی اور بےحیائی کو فروغ دیا جاسکے اور ہر سال "لو ڈے" یا "یوم محبت" کے تحت قسما قسم ناپاک اور غیر اخلاقی اعمال و افعال کو عشق و محبت کے پاک اور مقدس عنوان، انجام دے کر نوجوانوں کو فساد اور فحشاء کے دلدل میں پھنسا نیا جاتا ہے۔ 
جو کچھ ہر روز ویلنٹائن کے پس پردہ مقاصد میں سے ہر روز نمایاں ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ خاندانی رشتے نیست و نابود ہوجائیں، نوجوان شادی بیاہ سے نفرت کریں، دوستی اور دوستوں کی تلاش کو فروغ دیا جائے اور خاندان کی تشکیل اور شریک حیات کے انتخاب کو معاشرتی حیات سے نکال باہر کیا جائے۔ یہ اہداف و مقاصد سیٹلائٹ چینلز پر مختلف زبانوں میں چلائی جانے والی مغربی تشہیری مہم کے تحت ڈراموں اور فلموں یا پھر براہ راست پروگراموں میں بخوبی محسوس کئے جاسکتے ہیں۔ آج ان پروگراموں کے ذریعے اسلامی معاشروں کو خاص طور پر نشانہ بنایا جارہا ہے جبکہ بہت سے مسلمانوں نے "دل پاک ہونا چاہئے!" کے بہانے دشمن کو اپنے گھروں میں گھسنے کا انتظآم خود ہی کرتے ہوئے ڈش اینٹنا کے ذریعے اپنے خاندانوں کو مزيد زد پذیر کردیا ہے اور یوں ہمارے خاندان بھی اس المناک یلغار کا براہ راست نشانہ بن رہے ہیں اور یوں ویلنٹائن جیسے فتنوں کے اہداف و مقاصد زیادہ سے زيادہ طشت از بام ہورہے ہیں۔ اور پھر ویلنٹائن کے ساتھ ساتھ ویلنٹائن سے متعلق کچھ اشیاء بھی ہمارے ملکوں میں درآمد ہونے لگے ہیں۔ یہ سب ایک سیاسی منصوبے یا ایجنڈے کا حصہ ہے۔ 
اگر تھوڑا سا غور کیا جائے تو شاید ہم اسلام کے مسلّمہ فرمان "یعنی شادی بیاہ کی ضرورت" کی مختلف اتہاہ ادراک کرسکیں اور دوسری طرف سے دشمنان اسلام کی طرف سے اسلام فوبیا کے ضمن میں مغربی ممالک کے مختلف اقدامات کا جائزہ لینے کے بعد ممکن ہے کہ ہم ویلنٹائن کے منصوبہ سازوں کی شناخت بھی کرسکیں اور سمجھ سکیں کہ ویلنٹائن مغرب کے ثقافتی یلغاریوں کی نہایت عظیم ثقافتی یلغار کا ایک جزء ہے۔ اور شاید اس سوال کو اپنے ذہن میں دہرایا جاسکے کہ اس قسم کے افسانے کی ترویج اور اس کو ایک ثقافت و تہذیب میں بدلنے کی سازش کا مقصد بےحیائی اور مادر پدر آزادی کے فروغ کے سوا کچھ بھی نہيں ہے۔ بے شک یہ دن دو نامحرموں کے درمیان ایک ناپاک رابطے کی تجدید کا دن ہوسکتا ہے جبکہ ہم جانتے ہیں اور تجربے سے ثابت ہے کہ اس قسم کا بےبنیاد اور جھوٹا عشق  اور اس محبت کے شجر بےثمر کی کوئی جڑ نہيں ہے معاشرے کی جڑیں سست کرنے کے لئے۔ 
اس میں شک نہيں ہے کہ ویلنٹائن مغربی ثقافتی یلغار کا حصہ ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے معاشروں میں ایسی اخلاقی خلائیں موجود ہیں جن کو پر کرنے کے لئے اس قسم کے افسانے بھی بھی ہمارے اندر گھر کر لیتے ہیں؛ کچھ کمی ہے کچھ قلت ہے جس کا ازالہ کیا جارہا ہے اور ہمارے نوجوان اس قسم کے غیر اخلاقی امور کا خیر مقدم کرتے نظر آتے ہیں۔ 
اسلام اور ہمارے مسلم معاشروں میں مرد اور عورت کے درمیان محبت کا رشتہ جوڑنے کے تمام تر قوانین و احکام موجود ہیں لیکن خداوند مکتب نے ان کا صحیح تعارف نہیں کرایا؛ ہمارے یہاں دن بھی ہیں مناسبات اور مواقع بھی ہیں جو افسانے نہیں بلکہ حقائق ہیں لیکن ان پر کام نہیں ہوتا بلکہ بعض تو انہیں حرام قرار دیتے ہیں تاکہ ویلنٹائن کے وارے نیارے ہوں!! 
ہمارے یہاں ولادت اور شہادت کے دن ہیں جن کو عید یا عزا کے طور پر منایا جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ اور ائمہ طاہرین اور بزرگ اسلامی شخصیات کے ایام ولادت، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ اور ائمہ طاہرین علیہم السلام کی شادیوں کی تاریخیں، امیرالمؤمنین علیہ السلام اور حضرت سیدہ فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی شادی کا دن، ایام ولادت رسول اللہ(ص) ہفتہ وحدت کے عنوان سے، امیرالمؤمنین علیہ السلام کا یوم ولادت "یوم الاب (Father Day) کے عنوان سے، یو ولادت سیدۃ العالمین سیدہ فاطمہ بنت رسول اللہ(ص) "یوم الام (Mother Day) " کے عنوان سے، یوم ولادت حضرت فاطمہ معصومہ کریمہ اہل بیت(س) یوم البنت (Daughter Day) کے عنوان سے، یوم ولادت حضرت علی اکبر(ع) "یوم نوجوان" کے عنوان سے، منائے جاتے ہیں اور کئی اور مناسبتیں اور کئی اور ایام جشن و سرور، ہمارے مکتب اور ہماری اسلامی ثقافت میں موجود ہیں۔ یہ ایام نہ صرف افسانے نہیں ہیں بلکہ عین حقیقت ہیں اور عوام کے اعتقادات میں پیوست ہیں، اور بے شک یہ ایام خاندان نامی ادارے کی تقویت و استحکام اور حقیقی عشق و محبت کے اسباب فراہم کرسکتے ہیں اور ہمارے تشخص کو نمایاں تر کرنے میں کردار ادا کرسکتے ہیں۔ 
قابل غور نکتہ یہ ہے کہ خداوندان مکتب نے نہ صرف ان امور کو صحیح ثقافت کے طور پر رائج نہیں کیا اور نہ صرف ان کی مخالفت کی اور انہيں محدود کرنے کا مطالبہ کرتے رہے بلکہ مغربی ثقافتی یلغار کا سامنا کرنے کے لئے بھی ان کے پاس کوئی منصوبہ سازی نہیں ہے۔ وہ سیٹلائٹ چینلز کے سامنے بےبس ہیں اور جب ہم جیسے لوگ انہیں ان چینلز کے تباہ کن اقدامات کی طرف ان کی توجہ مبذول کراتے ہیں تو وہ یا ہم جیسوں کو دھتکارتے ہیں یا پھر خاموشی میں ہی عافیت سمجھتے ہیں؛ عافیت پسندی کی بنا پر۔ جیسا کہ وہ انسانوں کے قتل عام پر عافیت پسندی کی بنا پر خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ 
بعض علماء اور اکابرین کے اپنے گھروں کا حال بھی عام لوگوں کے گھروں سے کسی طور بھی بہتر نہیں ہے اور بعض کے گھروں میں تو عوام سے بھی کہیں زيادہ بری صورت حال ہے۔ یا پھر بعض اکابرین کا خیال ہے کہ سیٹلائٹ چینلز یا ویلنٹائن جیسے فتنوں کے سامنے خاموشی اختیار کرکے وہ ان کے جواز کو متنازعہ بنانے کی کوشش کررہے ہیں لیکن اس کا نتیجہ بھی الٹا نکل رہا ہے اور عوام ان کے صحیح، معقول اور قابل قبول موقف کی عدم موجودگی کی وجہ سے ویلنٹائن کے ایام میں ہمارے شہروں کی بعض دکانوں پر ویلنٹائن کا سازو سامان بر سر بازار بکتا ہے اور کہیں تو شہر کا شہر ویلنٹائن کی تصویر بن جاتا ہے۔ 
لگتا ہے کہ ہمارے علماء اور دانشور اگر ہماری دینی و مذہبی رسومات کا صحیح تعارف کرائیں، میلاد و وفات منانے میں روڑے نہ اٹکائیں اور اسلامی شخصیات کو مکاتب اور جماعتوں تک محدود نہ کریں تو اس سے ہمیں ہمارا تشخص بھی ملے گاع ویلنٹائن جیسے افسانوں کے فروغ کا سدبا کیا جاسکےگا، ثقافتی اور سماجی خلاؤں کا بھی ازالہ ہوگا اور دشمن کی ثقافتی یلغار کا راستہ بھی روکا جاسکے گا۔ 
پس، ویلنٹائن اور اس جیسی دوسری درآمدی اقدار کے فروغ کے سامنے خاموشی اور حقائق کو نظر انداز کرکے گوشہ عافیت میں دبکنا، مسئلے کا علاج نہیں ہے۔

Islamic Movie Barzakh Ka Safar Full (urdu)





Loading the player...

اسامہ کی تصویر والا کرنسی نوٹ جاری


شام کی معصوم بچی شہادت کی تمنا میں

شام کے شہر حمص میں ایک معصوم بچی نے اپنے شہید شدہ ماں کی قبر پر حاضر ہو کر اپنی شہادت کی تمنا کی ہے۔ 

سوشل نٹ ورک ٹویٹر پر شامی حکومت کے بعض حامیوں نے ایک ایسی بچی کی تصویر شائع کی ہے جس کی ماں حمص کے علاقے میں تکفیری دھشتگردوں کے ہاتھوں شہید ہو گی تھی۔
اس معصوم بچی نے حمص کے قبرستان میں مدفون اپنی ماں کی قبر پر حاضر ہو کر شہادت کی تمنا کی ہے تاکہ جنت میں اپنی ماں کے ساتھ زندگی گزارے۔
اس معصوم بچی کی شائع شدہ تصویر میں بچی نے اپنے ننھے ہاتھوں میں ایک کاغذ لیا ہوا ہے جس پر یہ عبارت لکھی ہے’’ میری یہ آرزو ہے کہ میں شہید ہو جاوں تاکہ جنت میں اپنی ماں کے ساتھ زندگی گزاروں‘‘۔


ایک رپورٹ کے مطابق تکفیری دھشتگردوں نے شہر حمص میں چار ہزار عورتوں اور بچوں کو محاصرے میں لے رکھا ہے کہا جاتا ہے کہ محاصرہ شدہ افراد کی حالت بہت تشویشناک ہے حتی خوراک، دوا اور دیگر ضروریات زندگی بھی موجود نہیں ہے۔

امام حسن عسکری علیہ السلام کی زوجہ محترمہ کا مزار کہاں واقع ہے؟

امام عسکری علیہ السلام نے ایک پاکدامن اور باکردار خاتون سے عقد ازدواج کیا جس کا ثمرہ وقت 

کے امام منجی عالم بشریت حضرت مھدی عج اللہ تعالی فرجہ الشریف ہیں۔ 

 امام حسن عسکری علیہ السلام کی زوجہ محترمہ جناب نرجس خاتون عراق کے شہر سامرہ میں اسی مقام پر مدفون ہیں جہاں امام حسن عسکری(ع)، امام ہادی (ع) اور جناب حکیمہ خاتون مدفون ہیں۔ اسی وجہ سے روضہٗ سامرہ کی ضریح مقدس آٹھ اضلاع پر مشتمل ہیں۔



 امام عسکری علیہ السلام نے ایک پاکدامن اور باکردار خاتون سے عقد ازدواج کیا جس کا ثمرہ وقت کے امام منجی عالم بشریت حضرت مھدی عج اللہ تعالی فرجہ الشریف ہیں۔
ذیل میں دی گئی تصویر میں جو انفرادی قبر ہیں  وہ امام ھادی(ع) کی بیٹی امام حسن عسکری(ع) کی بہن جناب حکمیہ خاتون کی قبر مبارک ہے اور جو تین قبریں ترتیب کے ساتھ ہیں وہ بائیں سے دائیں طرف پہلی قبر امام علی نقی علیہ السلام کی ہے درمیان میں امام حسن عسکری علیہ السلام اور اس کے بعد جناب نرجس خاتون امام زمانہ (ع) کی والدہ گرامی کی قبر مبارک ہے۔





امام حسن عسکری علیہ السلام کی زندگی کا مختصر جائزہ




حضرت امام حسن عسکری (ع) آٹھ ربیع الثانی 232 ہجری بروز جمعہ مدینہ میں پیدا ہوئے 

آپ  آسمان امامت و ولایت  اور خاندان وحی و نبوت کے  گیارہويںچشم و چراغ ہیں حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کا مقابلہ بھی اپنے اجداد طاہرین کی طرح اس وقت کے ظالم و جابر و غاصب وعیار و مکار عباسی خلفا سے تھا ۔ آپ کی مثال اس دور میں ایسی ہی تھی جس طرح ظلم و استبداد کی سیاہ آنداھیوں میں ایک روشن چراغ کی ہوتی ہے ۔ 
آپ مہتدیوں اور معتمدوں کی دروغگوئی ، فریب ، سرکشی کے دور میں گم گشتہ افراد کی ہدایت کرتے رہے ۔ آپ کی امامت کے دور میں عباسی خلفاء کے ظلم و استبداد کے محلوں کو گرانے کے بہت سے اہم اور تاریخی واقعات رونما ہوئے جو براہ راست امام (ع) کی ہدایات پر مبنی تھے ان میں سے مصر میں احمد بن طولون کی حکومت کا قیام ، بنی عباس کے ظلم و ستم کے خلاف حسن بن زید علوی کی درخشاں خونچکان تحریک اور آخر کار حسن بن زید کے ہاتھوں طبرستان کی فتح اور صاحب الزنج کا عظیم جشن اس دور کے اہم واقعات میں شامل ہے ۔ اس کے علاوہ مخفیانہ طور سے جو ارتباط امام علیہ السلام سے برقرار کئے جاتے تھے اس کی وجہ سے حکومت نے اس باب ہدایت کو بند کرنے کے لئے چند پروگرام بنائے ۔ پہلے تو امام کو عسکر چھاؤنی میں فوجیوں کی حراست میں دے دیا ۔ دوسرے مہتدی عباسی نے اپنے استبدادی اور ظالمانہ نظام حکومت پر نظر ثانی کی اور گھٹن کے ماحول کو بہ نسبت آزاد فضا میں تبدیل کیا اور نام نہاد ، مقدس مآب ، زرخرید ملّا عبدالعزیز اموی کی دیوان مظالم   کے نام سے ریا کاری پر مبنی ایک ایسی عدالت تشکیل دی جہاں ھفتے میں ایک دن عوام آکر حکومت کے کارندوں کے ظلم و ستم کی شکایت کرتے تھے ۔ لیکن اس ظاہری اور نام نہاد عدالت کا درحقیقت مسلمانوں پر کوئی اثر نہ ہوا بلکہ روز بروز امام حسن عسکری علیہ السلام کی طرف مسلمانوں کا حلقہ  وسیع  سے  وسیع تر  ہوتا  چلاگیا  اور  چاروں  طرف  سے حریت پسند مسلمانوں کی تحریک سے بنی عباس کی حکومت کی بنیادیں ہلنے لگیں اور عوام کی سیل آسا تحریک سے بنی عباس کی حکومت کے زوال کے خوف سے بنی عباس نے عوام میں اپنی مقبولیت پیدا کرنے کے لئے پروگرام بنایا کہ پہلے تو مال و دولت کو عوام کے درمیان تقسیم کیا جائے تا کہ لوگوں کی سرکشی کم ہو اور عوام کو خرید کر ایسا ماحول بنادیا جائے کہ جس امام حسن عسکری علیہ السلام کو شہید کرنے میں آسانی ہو ۔ تاریخ شاہد ہے کہ تمام دنیا کے جابر وظالم حکمرانوں کا یہ دستور رہاہے کہ جب بھی ان کے استبداد کے خلاف کسی نے آواز اٹھائی تو انہوں نے اس بات کی کوشش کی کہ جلد سے جلد اس آواز کو خاموش کردیں اگرچہ شاید ان کو یہ معلوم نہیں کہ آنے والی نسل میں ان کے لئے سوائے رسوائی مذمت کے کچھ نہیں ہوگا اور ان کے مظالم کے خلاف آواز اٹھانے والوں کی دنیا نہ صرف یہ کہ حمایت کرے گی بلکہ ان بزرگون کو عظمت کی نگاہ سے دیکھی گی اور ان مظلوموں کی زندگی کے نقش قدم پر چل کر فخر کرے گی امام حسن عسکری (ع) نے بھی ہمیشہ اپنے اجداد کی طرح دین اسلام کی حفاظت اور پاسداری میں اپنی زندگی کے گرانقدر لمحات کو صرف کیا اور دین کی حمایت کرتے رہے اگرچہ دین کی حمایت اور عوام کی خدمت عباسی حکمرانوں کے لئے کبھی بھی خوش آئند نہیں رہی لیکن خداوند متعال نے اپنی آخری حجت اور دین اسلام کے ناصر حضرت امام مہدی (ع)  کو امام حسن عسکری کے گھر میں بھیج کر واضح کردیا ہے کہ دین اسلام کے اصلی مالک و وارث اہل بیت رسول (‏ع) ہی ہیں ۔



امام حسن عسکری(ع) واحد امام معصوم جو حج بیت اللہ بجا نہ لا سکے

امام حسن عسکری علیہ السلام نے سابقہ ائمہ علیہم السلام کی سنت پر عمل کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کے ارشادات لوگوں تک پہنچائے، شیعیان اہل بیت(ع) کے فرائض بیان کئے، منتظرین کے فرائض واضح کئے اور اپنے آباء طاہرین کی مانند اسلامی دنیا کے مختلف شہروں میں اپنے وکلاء اور نمائندے متعین کئے؛ جیسا کہ ابن بابویہ قم میں امام حسن عسکری علیہ السلام کے وکیل تھے اور حتی کہ وہ وکالت نامہ آج بھی کتب حدیث میں موجود ہے جس میں امام(ع) نے ابن بابویہ کو اپنا وکیل مقرر فرمایا ہے اور یہ سب بھی امام زمانہ علیہ السلام کے لئے حالات مناسب بنانے کے الہی مشن کا تسلسل تھا۔ اور اس طرح امامت کا راستہ رکا نہیں بلکہ امام معصوم کے نائبین خاص اور پھر نائبین عام کے ذریعے امامت کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ 
امام حسن عسکری علیہ السلام نے بہت دشوار حالات میں خفیہ زندگی بسر کی، اور اس طرح جئے کہ گھٹن اور محاصرے میں بھی اپنے فرائض پر عمل کریں چنانچہ امام حسن عسکری علیہ السلام واحد امام ہیں جو حج نہ بجا لا سکے کیونکہ گھٹن بہت شدید تھا اور آپ مسلسل قلعہ بند تھے۔ 

حرم بی بی سکینہ پر تکفیری دھشتگردوں کے حملوں کے بعد کی تصاویر

شام میں مسلح تکفیری سلفی وہابی دہشت گردوں نے حضرت امام حسین علیہ السلام کی بیٹی حضرت بی بی سکینہ (س) کے طلائی گنبد پر کئی راکٹ فائر کرکے اسے شہید کردیا۔ 

 شام میں مسلح تکفیری سلفی وہابی دہشت گردوں نے حضرت امام حسین علیہ السلام کی بیٹی حضرت بی بی سکینہ (س) کے طلائی گنبد پر کئی راکٹ فائر کرکے اسے شہید کردیا ہے۔ سلفی وہابی دہشت گردوں نے دمشق کے قریب داریا علاقہ میں حضرت بی بی سکینہ (س) کے روضہ پر کئي راکٹ فائر کئے جس کے نتیجے میں روضہ مبارک کا طلائی گنبد شہید ہوگيا ہے۔

قابل ذکر ہے کہ شامی فوج اور عوام نے ملکر داریا علاقہ سے دہشت گردوں کو باہر نکال دیا تھا لیکن دہشت گرد دور سے ہی اس حرم مطھر پر راکٹ حملے کرتے اور اسے شہید کرنے کی کوشش کرتے ہیں دریں اثنا تکفیریوں کے تازہ ترین حملوں میں حرم بی بی سکینہ (س) کا گنبد طلائی شہید ہو گیا ہے۔

 واضح رہے کہ سلفی وہابی دہشت گرد ، پیغمبر اسلام حضرت محمد (ص) اور ان کی آل پاک (ع)  کے سخت دشمن ہیں ، سلفی وہابی دہشت گرد معاویہ اور یزید اور بنی امیہ خاندان کے حامی ہیں۔









HAZRAT ALI (as)


HAZRAT ALI (as) 





"Bewqoof aurat Apne shohar ko apna Ghulam banati hai aur khud Ghulam ki Biwi ban jati hai.

Jab ke Aqalmiand aurat apne Shohar ko Badshah banati hai aur khud Badshah ki Mallika banjati hai."


امام رضا علیہ السلام کی چالیس حدیثیں



اللہ پر حسن ظن رکھو اور خوش گمان رہو کیونکہ خداوند عزوجل فرماتا ہے: میں اپنے مؤمن بندے کے حسن ظن کے ساتھ ہوں، اگر اس کا گمان اچھا ہے تو میرا سلوک بھی نیک ہوگا اور اگر اس کا خیال میرے بارے میں برا ہے تو میرا سلوک بھی اس کے اچھا نہ ہوگا۔ 


بسم الله الرحمن الرحيم
قال الامام علی بن موسی الرضا علیہ السلام

1۔ تین خصلتیں تین سنتیں


لا یكون المؤمن مؤمنا حتی تكون فیه ثلاث خصال ، سنة من ربه، وسنة من نبیه، وسنة من ولیه. فاما السنة من ربه فكتمان سره ، و اما السنة من نبیه فمداراة الناس ، و اما السنة من ولیه فالصبر فی البأساء و الضراء۔

اصول کافی ، ج 3 ، ص (339)۔

مؤمن، حقیقی مؤمن نہیں ہے مگر یہ کہ تین خصلتوں کا حامل ہے: ایک سنت اللہ کی، ایک سنت اپنے پیغمبر(ص) کی اور ایک سنت اپنے امام کی۔ خدا کی سنت اپنا راز چھپا کر رکھنا ہے، پیغمبر(ص) کی سنت لوگوں کے ساتھ رواداری اور نرم خوئی ہے اور اس کے امام کی سنت تنگدستی اور پریشانی کے وقت صبر ہے۔ 

2۔ چھپ کر نیکی کرنا
المستتر بالحسنة یعدل سبعین حسنة، والمذیع بالسیئة مخذول ، والمستتر بالسیئة مغفور له۔ 
اصول کافی ، ج 4 ، ص (160)۔ 
نیک کام چھپا کر کرنے والے کا ثواب 70 حسنات کے برابر ہے، اعلانیہ بدی کرنے والا شرمندہ اور تنہا ہے اور (دوسروں کے) برے کام کو چھپانے والا بخشا ہوا ہے۔ 



3۔ انبیاء کا اخلاق 
من أخلاق الانبیاء التنظف۔ 
انبیاء کے اخلاقیات میں نظافت اور پاکیزگی شامل ہے۔ 
تحف العقول ، ص (466)۔ 

4۔ آدمی کا دوست اور دشمن
صدیق كل امرء عقله وعدوه جهله۔ 
تحف العقول ، ص (467)۔ 
آدمی کا دوست اس کی عقل اور اس کا دشمن اس کا جہل و نادانی ہے۔ 

5۔ عقل کامل کے لئے دس خصلتیں ضروری ہیں 
لا یتم عقل امرء مسلم حتی تكون فیه عشر خصال ، الخیر منه مأمول ، و الشر منه مأمون ، یستكثر قلیل الخیر من غیره ، و یستقل كثیر الخیر من نفسه ، لا یسأم من طلب الحوائج الیه ، و لا یمل من طلب العلم طول دهره ، الفقر فی الله احب الیه من الغنی ، و الذل فی الله احب الیه من العز فی عدوه ، و الخمول أشهی الیه من الشهرة . ثم قال ( علیه السلام) : العاشرة و ما العاشرة ! قیل له : ما هی ؟ قال ( علیه السلام) : لا یری أحدا الا قال : هو خیر منی و أتقی۔ 
تحف العقول ، ص (467)
مسلمان شخص کی عقل کامل نہیں ہے مگر یہ کہ وہ دس خصلتوں کا مالک ہو: اس سے خیر و نیکی کی امید کی جاسکے، لوگ اس سے امن وامان میں ہوں، دوسروں کی مختصر نیکی کو بڑا سمجھے، اپنی خیر کثیر کو تھوڑا سمھجے، اس سے جتنی بھی حاجتیں مانگی جائیں وہ تھک نہ جائے، اپنی عمر میں طلب علم سے اکتا نہ جائے، خدا کی راہ میں غربت اس کے نزدیک مالداری سے بہتر ہو، خدا کی راہ میں ذلت اس کے نزدیک خدا کے دشمن کے ہاں عزت پانے سے زیادہ پسندیدہ ہو، گم نامی کو شہرت سے زیادہ پسند کرتا ہو، اور پھر فرمایا: اور دسویں خصلت کیا ہے اور کیا ہے دسویں خصلت؟ عرض کیا گیا: آپ فرمائیں وہ کیا ہے؟ فرمایا: جس کسی کو بھی دیکھے کہہ دے کہ وہ مجھ سے زیادہ بہتر اور زيادہ پرہیزگار ہے۔ 

6۔ یقین سب سے افضل 
إن الایمان افضل من الاسلام بدرجة ، و التقوی افضل من الایمان بدرجة ، و لم یعط بنو آدم افضل من الیقین۔ 
تحف العقول ، ص (469)
ایمان اسلام سے ایک درجہ افضل ہے اور تقوی ایمان سے ایک درجہ بالاتر ہے اور فرزند آدم کو یقین سے افضل کوئی چیز عطا نہیں ہوئی۔ 

7۔ ایمان کیا ہے؟ 
والایمان أداء الفرائض واجتناب المحارم والایمان هومعرفة بالقلب وإقرار باللسان وعمل بالاركان۔ 
تحف العقول ، ص (444)۔ 
ایمان واجبات و فرائض پر عمل اور افعال حرام سے دوری ہے۔ ایمان دلی عقیدہ زبانی اقرار اور اعضاء و جوارح کے ساتھ عمل و کردار ہے۔ 

8۔ انبیاء کا اسلحہ اٹھاؤ 
علیكم بسلاح الأنبیاء، فقیل: وما سلاح الأنبیاء ؟ قال: الدعاء۔ 
اصول کافی ، ج 4 ، ص (214)
امام ہمیشہ اپنے اصحاب سے فرمایا کرتے تھے کہ انبیاء کا اسلحہ اٹھاؤ، کہا گیا: انبیاء کا اسلحہ کیا ہے؟ فرمایا: دعاء۔ 

9۔ صلہ رَحِم 
صل رحمك و لو بشربة من ماء ، وافضل ما توصل به الرحم كف الأذی عنها۔ 
تحف العقول ، ص (469)
قرابتداری کا پیوند برقرار کرو حتی اگر وہ ایک گھونٹ پانی کے ذریعے ہی کیوں نہ ہو، اور قرابتداری کا بہترین پیوند یہ ہے کہ قرابتداروں کو آزار و اذیت پہنچانے سے پرہیز کیا جائے۔ 

10۔ فہم دین کی نشانیاں 
إن من علامات الفقه : الحلم و العلم ، و الصمت باب من ابواب الحكمة ، إن الصمت یكسب المحبة ، إنه دلیل علی كل خیر۔ 
تحف العقول ، ص (469)
فہم دین کی نشانیوں میں حلم اور علم شامل ہیں اور خاموشی حکمت کے دروازوں میں سے ایک ہے۔ خاموشی دوستی اور محبت کماتی ہے اور ہر نیکی کی طرف راہنمائی فراہم کرتی ہے۔ 

11۔ گوشہ نشینی اور خاموشی کا زمانہ 
یأتی علی الناس زمان تكون العافیة فیه عشرة اجزاء : تسعة منها فی اعتزال الناس و واحد فی الصمت۔ 
تحف العقول ، ص (470)
وہ وقت لوگوں پر آئے گا جب عافیت کے دس اجزاء ہونگے: 9 اجزاء لوگوں سے دوری اور گوشہ نشینی میں ہونگے اور ایک جزء خاموشی میں۔ 

12۔ توکل کی تعریف 
سئل الرضا ( علیه السلام ) عن حد التوكل ، فقال ( ع ) : أن لا تخاف احدا الا الله۔ 
تحف العقول ، ص (469)۔ 
امام رضا علیہ السلام سے توکل کی حقیقت اور اس کی تعریف کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا: توکل یہ ہے کہ خدا کے سے کسی نہ نہ ڈرو۔ 

13۔ چار افراد چار چیزوں سے محروم 
لیس لبخیل راحة ، و لا لحسود لذة ، و لا لملوك وفاء ، و لا لكذوب مروة۔ 
تحف العقول ، ص (473)۔ 
بخیل اور کنجوس کے لئے چین اور آسائش نہيں ہے، حسد کرنے والے کے لئے کوئی لذت نہیں ہے، بادشاہوں میں وفا نہيں ہے اور جھوٹے شخص میں مروت اور جوانمردی نہيں پائی جاتی۔ 

14۔ حسن ظن، قناعت اور ۔۔۔ 
أحسن الظن بالله ، فإن من حسن ظنه بالله كان عند ظنه ، ومن رضی بالقلیل من الرزق قبل منه الیسیر من العمل ، ومن رضی بالیسیر من الحلال خفت مؤونته ونعم أهله و بصره الله داء الدنیا و دواءها واخرجه منها سالما الی دار السلام۔ 
تحف العقول ، ص (472)
خدا پر حسن ظن رکھو کیونکہ جو خدا پر حسن ظن رکھے خدا اس کے حسن ظن کے ساتھ ہے۔ اور جو بھی تھوڑے سے رزق پر راضی و خوشنود (اور قانع) ہو خدا اس کا مختصر سا عمل قبول فرماتا ہے، اور جو تھوڑے سے حلال رزق پر خوشنود ہو اس کے اخراجات کم ہونگے اور اس کا خاندان نعمتوں میں پلے گا اور خداوند متعال اس دنیا کے دکھوں اور دواؤں سے بصیرت عطا کرتا ہے اور اس دنیا سے سلامتی کے ساتھ جنت کے دارالسلام میں منتقل کرتا ہے۔ 

15۔ ایمان کے چار ارکان 
الایمان أربعة أركان: التوكل علی الله، والرضا بقضاء الله، و التسلیم لأمر الله، و التفویض الی الله۔ 
تحف العقول ، ص (469)
ایمان چار ارکان پر مشتمل ہے: خدا پر توکل، خدا کی قضا پر راضي ہونا، خدا کے امر کے سامنے تسلیم ہونا اور اپنے امور کو خدا کے سپرد کرنا۔ 

16۔ بہترین بندے 
سئل (علیه السلام) عن خیار العباد، فقال: الذین اذا أحسنوا استبشروا، واذا اساءوا استغفروا، واذا أعطوا شكروا، و اذا ابتلوا صبروا، واذا غضبوا عفوا۔ 
تحف العقول ، ص (469)
امام رضا علیہ السلام سے بہترین بندوں کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: وہ جب نیکی کرتے ہیں، خوش ہوجاتے ہیں، جب برا عمل کرتے ہیں، استغفار کرتے ہیں، جب ان کو کچھ عطا کیا جاتا ہے، شکر کرتے ہیں، جب بلا اور مصیبت سے دوچار ہوتے ہیں صبر کرتے ہیں اور جب غضبناک ہوتے ہیں، درگذر کرتے ہیں۔ 

17۔ دنیاوی زندگانی 
سئل الامام الرضا ( علیه السلام ) عن عیش الدنیا ، فقال: سعة المنزل وكثرة المحبین۔ 
بحار الانوار ، ج 76، ص (152)۔ 
امام رضا علیہ السلام سے دنیا کی خوشحال زندگی کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: وسیع گھر اور دوستوں کی کثرت۔ 

18۔ قیامت کے دن فراخی چاہتے ہو تو۔۔۔ 
من فرج عن مؤمن فرج الله عن قلبه یوم القیامة۔ 
اصول کافی ، ج 3 ، ص (268)
جو شخص کسی مؤمن کا مسئلہ حل کرے اور اداسی کو اس سے دور کردے خداوند متعال روز قیامت غم و اندوہ کو اس کے قلب سے دور کردیتا ہے۔ 

19۔ مؤمن کے دل کو خوش کیا کرو 
لیس شیء من الاعمال عند الله عزوجل بعد الفرائض افضل من إدخال السرور علی المؤمن۔ 
بحار الانوار ، ج 78، ص (347)۔ 
اللہ عزوجل کے نزدیک فرائض کی انجام دہی کے بعد کوئی بھی عمل مؤمن کے دل میں خوشی داخل کرنے سے افضل نہیں ہے۔ 

20۔ ایک دوسرے کے ساتھ دوست رہا کرو 
تزاوَرُوا تحـابـوا و تصـافحُـوا۔ 
بحار الانوار ، ج 78، ص (347) 
ایک دوسرے کے ملنے جایا کرو، ایک دوسرے سے دوستی اور محبت کیا کرو۔ (متعدد روایات میں منقول ہے کہ: ہمارے امر کو زندہ رکھنے کے لئے، ایک دوسرے کو ہماری حدیث بیان کرنے کے لئے ملتے رہا کرو اور یہ کہ تمہارے میل جول میں ہمارے مکتب کی حیات ہے چنانچہ ملنا اگر لہو و لعب کے لئے ہو تو اس میں کوئی فضیلت نہيں ہے)۔ 

21۔ دین و دنیا کے امور مخفی رکھو 
علیكم فی أموركم بالكتمان فی أمور الدین و الدنیا ، فإنه روی " أن الإذاعة كفر " و روی " المذیع و القاتل شریكان " و روی " ما تكتمه من عدوك فلا یقف علیه ولیك"۔ 
بحار الانوار ، ج 78، ص (347)
تم پر لازم ہے کہ اپنے دین و دنیا کے امور میں رازدار رہو، روایت ہوئی ہے کہ "فاش کرنا کفر ہے"، اور روایت ہوئی ہے کہ "جو اسرار کو فاش کرتا ہے وہ قاتل کے ساتھ قتل میں شریک ہے"، اور روایت ہوئی ہے کہ "جس چیز کو تم دشمن سے خفیہ رکھتے ہو تمہارا دوست بھی اس سے واقف نہ ہونے پائے"۔ (حدیث کے متن سے ظاہر ہے کہ کن کن امور کو چھپانا چاہئے)۔ 

22۔ چار لوگوں کے ساتھ چار رویئے اختیار کرو 
اصحاب السلطان بـالحَذر، وَ الصـّدّيق بـالتّـواضُع، وَ العدوّ بـالتّحرُز، وَ العامّة بالبشـر۔ 
بحارالانوار،ج 78، ص 356. 
سلطان اور حاکم کے اصحاب اور حاشیہ برداروں سے دوری اختیار کرو؛ 
دوست کے ساتھ خاکسارانہ رویہ رکھو؛ 
دشمن کے ساتھ احتیاط اور اجتناب کا رویہ اختیار کرو؛ اور 
لوگوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آیا کرو۔ 

23۔ اس شخص سے امید مت رکھو 
خمس من لم تكن فيه فلا ترجوه لشئ من الدنيا والاخرة: من لم تعرف الوثاقة في أرومته والكرم في طباعه، والرصانة في خلقه والنبل في نفسه، والمخافة لربه.
پانچ چیزیں اگر کسی میں نہ ہوں تو دنیا اور آخرت کے بارے میں اس سے امید وتوقع وابستہ نہ کرو: وہ جس کے وجود میں اعتماد نہ دیکھ سکو؛ وہ جس کی طینت میں کرم اور بزرگواری و جوانمردی نہ دیکھ سکو، وہ جس کے اخلاق اطوار میں استحکام و استواری نہ پاسکو، وہ جس کے نفس میں نجابت و شرافت نہ پاسکو اور وہ جس کے وجود میں خدا کا خوف نہ پاسکو۔ 

24۔ کس کا اجر مجاہد سے بھی بڑھ کر ہے؟ 
ان الذی یطلب من فضل یكف به عیاله أعظم أجرا من المجاهد فی سبیل الله۔ 
بحار الانوار ، ج 78، ص (339)۔ 
بے شک جو اپنے اہل و عیال کے لئے رزق و روزی وسیع کرنے کی کوشش کررہا ہے اس کا اجر و انعام خدا کی راہ میں جہاد کرنے والے مجاہد سے بھی بڑھ کر ہے۔ 

25۔ حب آل محمد(ص) اور نیک اعمال ایک دوسرے کے بغیر نامکمل 
لا تدعوا العمل الصالح و الاجتهاد فی العبادة اتكالا علی حب آل محمد ( علیهم السلام ) ، لا تدعوا حب آل محمد (علیهم السلام) و التسلیم لأمرهم اتكالا علی العبادة ، فإنه لا یقبل أحدهما دون الَاخر۔ 
بحار الانوار ، ج 78، ص (347)۔ 
(خبردار) نیک اعمال اور عبادت میں کوشش کو آل محمد(ص) کی محبت کے سہارے ترک نہ کرنا، اور (خبردار) کہیں ایسا نہ ہو کہ آل محمد(ص) کی محبت اور ان کی فرمانبرداری کو عبادت کے سہارت ترک نہ کرنا، کیونکہ یہ دونوں ایک دوسرے کے بغیر قابل قبول نہیں ہیں۔ 

26۔ تفکر عبادت ہے 
لیس العبادة كثرة الصیام والصلاة، وانما العبادة كثرة التفكر فی أمر الله۔ 
تحف العقول ، ص (466)۔ 
عبادت زیادہ روزہ رکھنا اور زیادہ نماز پڑھنا ہی نہیں ہے بلکہ بے شک امر خدا میں زیادہ غور وتفکر کرنا ہے۔ 

27۔ ہماری صورت حال 
قیل له: وكیف اصبحت؟ قال (ع ): اصبحت بأجل منقوص، وعمل محفوظ ، والموت فی رقابنا، والنار من ورائنا، ولا ندری ما یفعل بنا۔ 
تحف العقول ، ص (470)۔ 
عرض کیا گیا: یابن رسول اللہ(ص)! رات کیسے گذار دی؟ فرمایا: عمر کم ہوئی، کردار ثبت ہوا، اور موت ہماری گردن پر ہے اور دوزخ ہمارا پیچھا کررہا ہے اور ہم (یعنی انسان) نہیں جانتے کہ ہمارے ساتھ کیا ہوگا!۔ 

28۔ تین خصلتوں سے حقیقت ایمان تک پہنچ سکتے ہو 
لا یستكمل عبد حقیقة الایمان حتی تكون فیه خصال ثلاث: التفقه فی الدین، وحسن التقدیر فی المعیشة ، والصبر علی الرزایا۔ 
تحف العقول ، ص (471)۔ 
کوئی بھی بندہ کمالِ ایمان کی حقیقت تک نہیں پہنچ سکتا جب تک وہ تین خصلتوں کا مالک نہ ہو: دین میں سمجھ بوجھ، معیشت میں تدبیر اور اندازہ رکھنا، اور مصائب اور بلاؤں پر صبر۔ 

29۔ قرآن میں ہدایت تلاش کرو 
قال الریان للرضا (ع): ما تقول فی القرآن؟ فقال: كلام الله لا تتجاوزوه، ولا تطلبوا الهدی فی غیره فتضلوا۔ 
بحار الانوار ، ج 92، ص (117)
ریان بن صلت نے امام رضا علیہ السلام سے پوچھا: قرآن کے بارے میں آپ کی رائے کیا ہے؟ امام(ع) نے فرمایا: قرآن خدا کا کلام ہے، اس سے تجاوز نہ کرو اور قرآن کے بغیر کسی اور سے ہدایت و راہنمائی مت مانگو ورنہ گمراہ ہوجاؤگے۔ 
سوال: پھر ہم پر اہل بیت(ع) کی پیروی کیوں واجب ہے؟ جواب: وہ بھی قرآن ہی کا حکم ہے اور باعث ہدایت۔ 

30۔ اللہ رحم کرے اس پر جو ہمارے امر کو زندہ رکھے 
قال عبدالسلام بن صالح الهروی: سمعت الرضا (ع) یقول: رحم الله عبدا احییٰ امرنا. قلت : وكیف یحیی امركم ؟ قال: یَتَعَلَّمُ علومَنا وَیُعَلِّمُها الناسَ۔ 
وسائل الشیعة ، ج 18، ص (102)۔ 
عبدالسلام الہروی کہتے ہیں: میں نے امام رضا(ع) کو فرماتے ہوئے سنا: خدا رحم کرے اس بندے پر جو ہمار امر (اور ہمارے مشن) کو زندہ رکھے۔ میں نے عرض کیا: وہ ایسا کیونکر کرسکتا ہے؟ فرمایا: ہمارے علوم کو سیکھ لے اور لوگوں کو سکھائے۔ 

31۔ خود احتسابی، عالم کون ہے؟ 
من حاسب نفسه ربح ، ومن غفل عنها خسر، ومن خاف أمن، ومن اعتبر أبصر، ومن أبصر فهم ، ومن فهم علم۔ 
بحار الانوار ، ج 78، ص (352)۔ 
جو اپنے آپ کا احتساب کرے منافع اٹھائے گا، جو اپنے آپ سے غافل ہوجائے نقصان اٹھائے گا، جو اپنے مستقبل سے فکرمند ہوگا اور خوفزدہ ہوگا، محفوظ رہے گا اور جو دنیا کے حوادث اور واقعات سے عبرت لے، صاحب بصیرت بنے گا اور جو صاحب بصیرت ہوگا وہ مسائل کو سمجھ لےگا اور جو مسائل کو سممجھ لے وہ عالم ہے۔ 

32۔ عُجب کے کئی درجات ہیں 
العجب درجات: منها ان یزین للعبد سوء عمله فیراه حسنا فیعجبه ویحسب انه یحسن صنعا، ومنها أن یؤمن العبد بربه فیمن علی الله ولله المنة علیه فیه۔ 
تحف العقول ، ص (468)۔ 
عُجب کے کئی درجات ہیں: ان میں سے ایک یہ ہے کہ بندے کا برا عمل اس کو خوبصورت نظر آئے اور سمجھے کہ اس نے اچھا کام کیا ہے، ایک یہ ہے کہ خدا پر ایمان رکھنے والا بندہ خدا پر احسان جتائے حالانکہ خدا نے اس سلسلے میں اس پر احسان کیا ہے۔ 

33۔ تین چیزوں کا تعلق تین چیزوں سے 
إن الله عزوجل أمر بثلاثة مقرون بها ثلاثة اخری: امر بالصلاة و الزكاة، فمن صلیٰ ولم یزك لم یقبل منه صلاته ، وامر بالشكر له وللوالدین، فمن لم یشكر والدیه لم یشكر الله، وامر باتقاء الله و صلة الرحم، فمن لم یصل رحمه لم یتق الله عزوجل۔ 
عیون اخبار الرضا ، ج 1 ، ص (258)۔ 
خداوند متعال نے تین چیزوں کو تین چیزوں سے مربوط کردیا ہے (اور ایک دوسری کے بغیر ناقابل قبول ہے): نماز کو زکوٰۃ کے ساتھ ذکر فرمایا ہے پس جو نماز ادا کرے اور زکوٰۃ نہ دے اس کی نماز قبول نہ ہوگی، نیز اس نے اپنے شکر کو والدین کے شکر کے ساتھ ذکر کیا ہے پس جو خدا کا شکر کرے اور والدین کا قدر دان نہ ہو اس نے خدا کا شکر ادا نہیں کیا ہے۔ اور خدا نے تقوائے الہی اور اعزاء و اقارب کے ساتھ پیوند استوار رکھنے کا حکم دیا ہے پس جو اپنوں کے ساتھ نیکی و احسان نہ کرے وہ متقی اور پرہیزگار شمار نہ ہوگا۔ 

34۔ حرص و حسد سے پرہیز کرو بخل ایمان کے خلاف ہے 
ایاكم والحرص و الحسد، فإنها أهلكا الامم السالفة، وایاكم والبخل فإنها عاهة لا تكون فی حر ولا مؤمن، إنها خلاف الإیمان۔ 
بحار الانوار ، ج 78، ص (346)
حرص و حسد سے پرہیز کرو کیونکہ ان دو نے سابقہ امتوں کو نیست و نابود کیا اور بخل و کنجوسی سے پرہیز کرو کیونکہ کوئی بھی مؤمن اور آزاد انسان بخل کی آفت میں مبتلا نہيں ہوتا۔ بخل ایمان سے متصادم ہے۔ 

35۔ صدقہ دیا کرو 
تصدق بالشیء وإن قل، فان كل شیء یراد به الله، وإن قل بعد ان تصدق النیة فیه عظیم۔ 
وسائل الشیعة ، ج 1 ، ص (87)۔ 
صدقہ دیا کرو خواہ وہ کم ہی کیوں نہ ہو کیونکہ ہر چھوٹا کا جو خدا کی خاطر انجام دیا جائے، عظیم ہے۔ 

36۔ تائب بےگناہ ہے 
التائب من الذنب كمن لا ذنب له۔ 
بحار الانوار ، ج 6 ، ص (21)
توبہ کرنے والا اس شخص کی مانند ہے جس نے کوئی گناہ ہی نہیں کیا۔ 

37۔ بہترین عقل وتفکر 
افضل العقل معرفة الانسان نفسه۔ 
بحار الانوار ، ج 78، ص (352)
بہترین تعقل و تفکر یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو پہچان لے (اور معرفت نفس حاصل کرے)۔ 

38۔ خدا پر حسن ظن رکھو 
أحسن الظن بالله، فإن الله عزوجل یقول: أنا عند ظن عبدی المؤمن بی، إن خیراً فخیراً وإن شراً فشراً۔ 
اصول کافی ، ج 3 ، ص (116). 
اللہ پر حسن ظن رکھو اور خوش گمان رہو کیونکہ خداوند عزوجل فرماتا ہے: میں اپنے مؤمن بندے کے حسن ظن کے ساتھ ہوں، اگر اس کا گمان اچھا ہے تو میرا سلوک بھی نیک ہوگا اور اگر اس کا خیال میرے بارے میں برا ہے تو میرا سلوک بھی اس کے اچھا نہ ہوگا۔ 

39۔ صلہ رحمی طول عمر کا سبب 
یكون الرجل یصل رحمه، فیكون قد بقی من عمره ثلاث سنین فیصیرها الله ثلاثین سنة ویفعل الله ما یشاء۔ 
اصول کافی ، ج 3 ، ص (221)
کبھی، ایک شخص صلہ رحمی کرتا ہے (اور اپنوں سے پیوند برقرار کرتا ہے) جبکہ اس کی عمر میں سے صرف تین سال باقی رہ گئے ہیں پس خداوند متعال اس کی عمر 30 سال تک بڑھا دیتا ہے، اور خدا جو چاہے انجام دیتا ہے۔ 

40۔ لوگوں کی حاجت برآری کی اہمیت 
احرصوا على قضاء حوائج المؤمنين وإدخال السرور علیهم ودفع المكروه عنهم، فإنه لیس شیءٌ من الاعمال عندالله عزوجل بعد الفرائض افضل من إدخال السرور علی المؤمن۔ 
بحار الانوار ، ج 78، ص (347)۔ 
مؤمنین کی ضروریات پوری کرنے اور ان کو خوشنود کرنے اور مشکلات کو ان سے دور کرنے کی کوشش کرو کیونکہ فرائض کی انجام دہی کے بعد خدا کے نزدیک کوئی بھی عمل مؤمن کو خوشنود کرنے سے افضل نہیں ہے۔ 

شهیدرضا اسماعیلی



شهیدرضا اسماعیلی ، بی بی زینب سلام اللہ کے حرم مبارک کا دفاع کرتے ہوئے جام شہادت نوش فرمایا ہے ۔ خدا ان کی شہادت قبول فرمائے۔ وہابیوں اور تکفری لعینوں نے ان کے سر کو بدن سے جدا کرکے اپنے اباواجداد یعنی یزید ملعون اور شمر ملعون کے کردار پر عمل کرکے اپنے حرامی ہونے کا ثبوت دیا ہے ۔ 

امام زمانہ (عج) کے ساتھیوں کے اوصاف

امام صادق علیہ السّلام نے فرمایا


ایسے مرد ہیں جن کے دل لوہے کے ٹکڑوں کی مانند ہیں، ذات اللہ میں کسی شک و تردد کا شکار نہیں ہوتے، ان کے دل پتھر کی مانند مضبوط ہونگے اوراگر وہ پہاڑوں پر حملہ آور ہوجائیں تو انہیں اکھاڑ کر ختم کردیں گے؛ اپنے پرچم لے کر کسی شہر کا قصد کریں تو اس کو نیست و نابود کرکے ہی دم لیتے ہیں؛ گویا اپنے گھوڑوں پر سوار عقاب ہیں اور تبرک کی نیت سے امام (ع) کے گھوڑے کی زين کو ہاتھوں سے مسح کرتے ہیں؛ اور جنگوں میں امام (عج) کے گرد پروانہ وار گھومتے ہیں اور امام (عج) کے فرامین کی تعمیل کرتے ہیں؛ ایسے مرد ہیں جو راتوں کو سویا نہیں کرتے بلکہ نماز پڑھتے ہیں اور ان کی نماز کی صدا شہد کی مکھیوں کی بنبناہٹ سے مشابہت رکھتی ہے جو چھتے سے سنائی دیتی ہے؛ اور وہ اپنی سواریوں پر سوار ہوکر صبح کرتے ہیں؛ راتوں کو راہب بنتے اور دنوں کو شیر ہوتے ہیں وہ اپنے امام کے لئے، مالک کے کے لئے کنیز سے بھی زیادہ، اطاعت گذار ہیں؛ چراغوں کی مانند ہیں اور گویا ان کے دل قندیل ہیں جبکہ وہ اللہ کے خوف سے فکرمند رہتے ہيں؛ شہادت کی دعا کرتے ہیں اور اللہ کی راہ میں قتل ہونا ان کی آرزو ہے؛ ان کا نعرہ اور شعار "یا لثارات الحسین (ع)" اے حسین کے خونخواہو!) ہے؛ جب روانہ ہوجاتے ہيں تو ان کا رعب اور ان کے آنے کا خوف ان کے پہنچنے سے قبل ـ ایک مہینے کی مسافت، کے برابر ـ دشمن پر طاری ہوتا ہے۔

Ref: (بحار، ج52، ص308).
:چنانچہ یہ ہیں امام زمانہ (عج) کے ساتھیوں کے اوصاف

1ـ قلب محكم کے مالک ہونگے، ان کے قلوب لوہے کے ٹکڑوں کی مانند ہونگے۔

2ـ وسوسوں سے دوری، ذات خدا میں کسی طور بھی شک نہیں کریں گے۔

3۔ دشمن کے جس علاقے کا رخ کریں گے اسے فتح کرکے دم لیں گے۔

4ـ برکت کے خواہاں ہونگے؛ عقابوں کی مانند اپنے گھوڑوں پر سوار ہوکر امام علیہ السلام کی زین پر ہاتھ پھر کر برکت جوئی کریں گے۔

5ـ جان نثار ہونگے؛ امام علیہ السلام کی شمع کے گرد پروانہ وار گھومیں گے اور اور اپنی جانوں سےآپ (ع) کی حفاظت کریں گے۔

6ـ شب زندہ دار اور اہل مناجات ہیں؛ راتوں کو نہیں سوتے اور ان کے تہجد کی صدائیں ان شہد کی مکھیوں کی آواز جیسی سنائی دے گی جو چھتے سے سنائی دیتی ہے۔

7ـ اطاعت محض اور صرف اور صرف فرمانبراری؛ وہ اپنے امام (ع) کے فرمان کے سامنے مالک کے فرمان کے سامنے کنیزکی اطاعت سے بھی زیادہ اطاعت گذار ہونگے۔

9۔ راتوں کے زاہد؛ راتوں کے زاہد و راہب اور دنوں کے شیر ہونگے۔

8ـ ان کے دل روشن ہونگے؛ چراغوں جیسے ہونگے اور ان کے دل یوں روشن ہونگے گویا کہ ان کے قلوب قندیل و مشعل کی مانند روشن ہونگے۔

10ـ خوف خدا کے حامل ہونگے؛ وہ اللہ کے خوف سے فکرمند ہونگے۔

11ـ شہادت طلبی ان کا شیوہ؛ ان کی آرزو اللہ کی راہ میں قتل ہونا ہے۔

12ـ حق کی نصرت کرنے والے ہونگے؛ اور اللہ تعالی ان کے ذریعے امام حق (عج) کو نصرت عطا فرمائے گا۔