بحرین کے ایک انقلابی رہنما کو زندہ جلا دیا گیا


اہلبیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ بحرین کے شہر ’’سار‘‘ میں گزشتہ روز آل خلیفہ کے سیکیورٹی دستوں نے اس علاقے کے ساکن افراد کے گھروں پر حملہ کر کے انقلاب بحرین کے فیلڈ کمانڈر حسین عبد اللہ عبد الکریم کو انتہائی دردی سے شہید کر دیا۔

اطلاعات کے مطابق اس ۳۵ سالہ جوان کی شہادت اس وقت ہوئی جب آل خلیفہ کے مزدوروں نے شہر سار میں ان کے گھر پر حملہ کیا اور انہیں شدید ضرب و شتم کا نشانہ بنانے کے بعد احتراقی مواد سے جلا دیا گیا۔
واضح رہے کہ شہر سار کے لوگوں نے گزشتہ روز حکومت کے خلاف مظاہرہ کر کے حکومتی عہدہ داروں سے عدل و انصاف کے قیام اور آل خلیفہ حکوت کی سرنگونی کا مطالبہ کیا ہے۔
عبد الکریم کی شہادت کے ساتھ انقلاب کرامت کے شہداء کی تعداد ۱۰۸ ہو گئی ہے۔ 


طالبان نے شیعہ ہونے کی وجہ سے مار دیا


ابنا: غیر ملکیوں کے ساتھ موجود پانچ مقامی افراد میں سے علی حسین واحد پاکستانی تھے جنہیں دہشت گردوں نے ہلاک کیا جبکہ سنی مسلک سے تعلق رکھنے والے باقی چار افراد کو چھوڑ دیا۔

اٹھائیس سالہ علی حسین کے خاندان کے افراد اور دوستوں کہنا ہے کہ وہ مصروف زندگی گزارتے تھے۔ نانگا پربت اور اس کے اطراف میں کوہ پیمائی کے لیے آنے والوں کے ساتھ کبھی کھبار وہ بحیثیت قلی اور باورچی کام کرتے تھے۔ اتوار کی شب گلگت بلتستان کے علاقے سکردو کے گاؤں میں اُن کی میت پہنچی۔ رشتے داروں کا کہنا ہے کہ علی حسین کے سر اور سینے میں گولیاں ماری گئیں۔علی حسین کے ایک رشتہ دار علی خان کے مطابق علی حسین کی موت سے اُن کا خاندان تباہ ہو گیا ہے۔ ’وہ محنتی تھا۔اچھے پیسے کماتا تھا اور کامیاب تھا۔‘

علی حسن نے پاکستان کے شمالی علاقے کے مزدوروں کے طریقے کے مطابق زندگی گزارنے لگے۔ وہ سردیوں میں پنجاب کے علاقے میں کھانا پکانے کا کام کرتے اور موسم گرما میں گلگت بلتستان کے علاقے میں 40 دن کوہ پیمائی کے موسم میں بلندیوں تک سامان لے کر جاتے۔

علی حسین کے والدین نے بہت کم عرصے اُن کے تعلیمی اخراجات برداشت کیے۔ انھیں کھیتوں میں والدین کے ساتھ ہاتھ بٹانے کے لیے سکول کو چھوڑنا پڑا۔ لیکن علی حسین نے اپنے پانچ سال کے عمر کے لڑکے کو انگلش میڈیم سکول میں تعلیم دلوانے کے لیے سخت محنت کر رہے تھے۔

علی حسین نے اپنے پسماندگان میں بیوی سمیت، بیٹا اور دو بیٹیاں چھوڑی ہیں۔ اُن کی سب سے چھوٹی بیٹی صرف آٹھ ماہ کی ہے۔

 اطلاعات کے مطابق مقامی سکیورٹی فورسز کی وردیوں میں ملبوس مسلح حملہ آواروں کی تعداد کم از کم پندرہ تھی۔ دہشت گردی کا یہ واقع 4200 میٹر کی بلندی پر ہوا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حملہ آور اٹھارہ گھنٹے پیدل یا خچر پر سفر کر کے اس مقام پر پہنچے تھے۔
.....




                                     ملک اسحاق کا ایک چہرہ اور ؛ نیز آل سعود اور یہود کی یکجہتی

ارادہ یہ ہے کہ اس تصویر کے بارے میں کچھ نہ کہا جائے کیونکہ یہ تصویر خود بول رہی ہے بہت کچھ ہاں مگر اتنا بولنے دیا جائے کہ یہ تصویر حال ہی میں خادم الحرمین الشریفین کے سائے تلے دہشت گردوں کو سہولیات فراہم کرنے والے کسی ادارے کے اندر لی گئی ہے اس تصویر میں 154 کے قریب پاکستانیوں کے قتل میں ملوث مگر آزاد دہشت گرد ملک اسحاق کو ایک بے حجاب لڑکی کے ساتھ دکھایا گیا تو جو خادم الحرمین کے ماتحتوں نے انہيں فراہم کی تھی۔ یہ ہے دین کا دعوی کرکے انسانوں کا خون بہانے والے مہمانوں کا حال اور یہ ہے دین کی پیشوائی کے دعویدار میزبانوں کی صورت حال۔ دیکھئے




یہ تصویر آل سعود اور آل یہود کی یکجہتی کا ثبوت ہے گوکہ ان دو کی یکجہتی سیاسی حوالے سے مزید کسی سے بھی ڈھکی چھپی نہیں رہی؛ دیکھئے