سعودیہ اور بحرین کے حکمران پاکستان میں جو سودا بازی کرنے آئے ہیں وہ بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔
مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ڈپٹی جنرل سیکریٹری علامہ امین شہیدی نے کہا ہے کہ یہ امر افسوسناک ہے کہ ا قوام عالم میں اسلام کی پہچان ایک ایسے مذہب کے طور پر کرائی جا رہی جس کی حقیقت بربریت حیوانیت ہے، صومالیہ ، فلسطین ، سعودیہ، شام ، افریقہ، بحرین جہاں بھی عسکری قوت ضرورت ہوں ہماری افواج کو وہاں بھیج دیا جانانہ عقلمندی کا تقاضہ ہے اور نہ ہی ملک اس کا متحمل ہو سکتا ہے بلکہ اس سے ملکی سالمیت کو درپیش خطرات بڑھ جایءں گے،الجزیرہ ٹی وی نے اس حقیقت کوآشکار کر دیا ہے کہ چار ہزار طالبان پاکستان سے شام منتقل کیے جا چکے ہیں جوکہ با عث شرم ہے اوراس سے بین الاقوامی برادری میں ملکی وقار کی سبکی ہو گی۔ اُنہوں نے ان خیالات کا اظہار اتوار کے روز یوم دفاع کی مناسبت سے منعقدہ ’’استحکام پاکستان سیمینار ‘‘ سے خطاب کرتے ہوئے کیا،، سمینار کا انعقاد مجلس وحدت مسلمین اسلام آبادنے کیا تھا۔اپنے خطاب کے دوران ایم ڈبلیوایم کے مرکزی ڈپٹی جنرل سیکریٹری علامہ امین شہیدی نے کہا ہے کہ جوقومیں اپنی مذہبی اقدار اور ملی حمیت فراموش کر دیں ان کا وجود باقی نہیں رہتا اور وہ عالمی سطح پر اپنا وقار کھوبیٹھتی ہیں۔افسوسناک امر یہ ہے کہ اس وقت اقوام عالم میں اسلام کی پہچان ایک ایسے مذہب کے طور پر کرائی جا رہی جس کی حقیقت بربریت و حیوانیت ہے جو کہ حقیقت کے برعکس ہے اور اسلام کی تعلیمات کے برعکس بھی۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کے قیام کا بنیادی مقصد ایک ایسی ریاست کا حصول تھا جہاں اسلام کے سنہرے اصولوں کے مطابق زندگی گزاری جا سکے لیکن مفاد پرست حکمرانوں نے اقبال کے خوابوں کی تعبیر کو وہ بھیانک رنگ دیا کہ ان کی روح بھی آج ماتم کر رہی ہو گی، اس وقت دنیا بھر کے فرعون اپنی فرعونیت کا جھنڈا گاڑھنے کے لیے کرائے کے قاتل پاکستان سے حاصل کرتے ہیں۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ڈپٹی جنرل سیکریٹری نے انکشاف کیا کہ الجزیرہ ٹی وی نے اس حقیقت کوآشکار کر دیا ہے کہ چار ہزار طالبان پاکستان سے شام منتقل کیے جا چکے ہیں جوکہ با عث شرم ہے اوراس سے بین الاقوامی برادری میں ملکی وقار کی سبکی ہو گی۔ انہوں نے اپنی بات کی مزید وضاحت کرتے ہوئے واضح کیا کہ سعودیہ اور بحرین کے حکمران پاکستان میں جو سودا بازی کرنے آئے ہیں وہ بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ انہوں نے کہا کہ کیا ہماری افواج نے ساری دنیا کا ٹھیکہ لے رکھا ہے۔ صومالیہ ، فلسطین ، سعودیہ، شام ، افریقہ، بحرین جہاں بھی عسکری قوت ضرورت ہوں ہماری افواج کو وہاں بھیج دیا جانانہ عقلمندی کا تقاضہ ہے اور نہ ہی اس کی ضرورت ہے بلکہ اس عمل سے ہم پاکستان کی غیر جانبدارانہ حیثیت اور عالمی وقار کو خود ہی نقصان پہنچا رہے ہیں اور اس کی منفی اثرات ملکی سالمیت کے لئے خطرناک ثابت ہوں گے۔ علامہ امین شہیدی نے کہا امریکی مفادات کے حصول کے لیے طالبان نے بے گناہ انسانی جانوں کے خون سے ہاتھ رنگنے کی جو مشق شروع کر رکھی ہے اس کا شریعت سے کوئی تعلق نہیں۔یہ لوگ یہود و کفار سے بھی بدتر ہیں۔ مٹھی بھر ان افراد سے ایک ایٹمی طاقت کے برابری کی بنیادوں پر مزاکرات حکومت کی بزدلی کا بین ثبوت ہے۔ اس موقع پر مجلس وحدت مسلمین پنجاب کے ترجمان علامہ محمداصغر عسکری نے کہا کہ پاکستان دنیا کا وہ واحدملک ہے جو نظریہ اسلام کی بنیادپر وجود میں آیا مگر ہماری بدقسمتی کہ یہاں پر اسلام نا م کی کوئی شے نہیں۔ اسلام کے نام پر جس وحشت و حوانیت کو متعارف کرایا جا رہا ہے اس کا اسلا م سے کوئی دور کا بھی واسطہ نہیں۔انہوں نے کہا آج تجدید عہد کا دن ہے اور ہم نے مل کر یہ عہد کرنا ہے پاکستان کو ایک ایسی ریاست بنائیں گے جو حقیقی معنوں میں قائد و اقبا ل کے خوابوں کی تعبیر ہو۔ سمینار سے خطاب کرتے ہوئے تحریک منہاج القرآن کے رہنما عمر ریاض عباسی نے کہا ہے کہ اس ملک میں دین، وردی اور سیاست کے نام پر بے دریغ لوٹ مار کی گئی ہے۔ ٹوارزم کے نام پر سعودیہ جو پیسہ کماتا ہے اس کا تیس فیصد پاکستان کے مدارس پر لگایا جاتا ہے۔وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی لال مسجد میں ایک ایسے گروہ کو پروان چڑھایا گیا جس کا مقصد ایک مخصوص مسلک کی بالادستی تھی۔ وہاں کے مولانا آئین کو غیر شرعی کہہ کر کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں۔انہوں نے کہا جو وحشی انسانی سروں کے ساتھ فٹ بال کھیلیں ا ن کے ساتھ مذاکرات کی بات لمحہ فکریہ ہے۔پاکستان مسلم لیگ ق کے رہنما سجاد بخاری کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ہمیشہ موروثی سیاست کو فروغ ملا۔ حکومتیں نسل در نسل منتقل ہوتی رہیں۔ پاکستان کو اس وقت جن مشکلات کا سامنا ہے اس کا ایک سبب یہ بھی ہے انہوں نے کہا کہ پاکستان کے ہر کونے میں دہشت گردوں کے خلاف بلاتخصیص کاروائی کی جائے تاکہ اس ملک سے انتہا پسندی کا خاتمہ ہو سکے اور ہمارے ملک امن کا گہوارہ بنے۔ سیمینار کے اختتام قومی شخصیات اور شہداء کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے شمعیں روشن کی گئیں
No comments:
Post a Comment
Post Your Comments