Characteristics of life of Bibi Syeda Fatima (S.A)

نبی مکرم اسلام: جو اسے جانتا ہے وہ تو اسے جانتا ہی ہے اور جو نہیں جانتا وہ اسے پہچان لے کہ یہ فاطمہ بنت محمد ہے اور یہ میرا ٹکڑا ہے اور یہ میرے دونوں پہلووں کے در میان دھڑکنے والا میرا دل ہے لہذا جس نے اسے ستایا اس نے مجھے تکلیف دی اور جس نے مجھے تکلیف پہنچائی اس نے اللہ کو تکلیف دی ہے۔

شہزادی کائناتؑ، اللہ تعالی کے سب سے عظیم الشان پیغمبر کی بیٹی ،پہلے امام امیر المؤمنین ؑ کی شریکۂ حیات، سلسلہ امامت کی دو درخشندہ ترین شخصیتوں کی مادر گرامی ہیں بیشک آپ ہی آخری رسالت الٰہیہ کا روشن ومنور آئینہ ہیں نیز عالمین کی عورتوں کی سیدۂوسردار اور رسول اطہر کی پاک وپاکیزہ ذریت کا صدف اور ان کی طیب و طاہر نسل کا سر چشمہ آپ ہی کی ذات ہے۔


آپ کی تاریخ، رسالت کی تاریخ سے جڑی ہوئی ہے کیونکہ آپ ہجرت سے آٹھ سال پہلے پیدا ہوئیں اور آنحضرتؐ کی وفات کے چند مہینے بعدہی اس دنیا سے تشریف لے گئیں ۔

آپ کی عظمت و منزلت نیزمقصد شریعت کے بارے میں آپ کی دوڑدھوپ کی بنا پر نبی اکرمؐ نے زبان وحی ورسالت سے اسکا بارباراسی طرح اعلان کیا ہے جس طرح قرآن مجید نے صراحت کے ساتھ اہلبیت ؑ کے فضائل و کرامات کا تذکرہ کرنے کے علاوہ شہزادی کائنات کی عظمت ومنزلت کا خصوصی تذکرہ بھی فرمایاہے۔

شہزادی ؑ کائنات قرآن مجید کی روشنی میں 


جن لوگوں نے حق کی راہ میں قربانی دی ہے قرآن مجید کی آیتوں میں ان کی تجلیل و تعظیم کے ساتھ ساتھ ان کی مدح و ثنا بھی ہوئی ہے چنانچہ ان آیتوں کی تلاوت کا سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا ۔

قرآن مجید نے جن لوگوں کا خصوصی تذکرہ کیا ہے اور ان کے کردار اور فضائل و کمالات کی نمایاں طور سے تعریف کی ہے ان میں اہلبیت ؑ پیغمبر ہر مقام پر سر فہرست نظر آتے ہیں مورخین اور مفسرین نے نقل کیا ہے کہ ان حضرات کی مدح وثنا میں کثرت کے ساتھ قرآن مجید کی آیتیں نازل ہوئی ہیں بلکہ قرآن مجید کے متعدد سورے تو ان کے بتائے ہوئے جادۂ حق اور ان کے حسن عمل کی تائید اور مدح سرائی کے ساتھ ان کی پیروی کی دعوت سے مخصوص ہیں۔

۱۔کوثر رسالت


کوثر یعنی خیر کثیر اور اگر چہ بظاہر اس میں وہ تمام نعمتیں شامل ہیں جن سے اللہ تعالی نے اپنے آخری نبی حضرت محمد مصطفیؐ کو نوازا تھا لیکن سورۂ کوثر کی آخر ی آیت کی شان نزول کے بارے میں جو تفصیلات ذکر ہوئے ہیں ان سے یہ بالکل واضح ہے کہ اس خیر کثیر کاتعلق کثرت نسل اور اولاد سے ہے جیسا کہ آج پوری دنیا جانتی ہے کہ رسول اسلامؐ کی نسل طیبہ آپ کی اکلوتی بیٹی حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا سے ہی چلی ہے جسکا تذکرہ حضور اکرمؐ کے بعض احادیث میں بھی موجود ہے۔

مفسرین نے اس سلسلہ میں یہ نقل کیا ہے کہ عاص بن وائل نے ایک دن قریش کے بڑے بڑے لوگوں سے یہ کہا:محمد تو لا ولد،ہیں اور ان کا کوئی بیٹا نہیں ہے (۱)جو ان کا جانشین بن سکے لہٰذا جس دن یہ دنیا سے چلے جائیں گے اس دن ان کا کوئی نام لینے والا بھی نہ رہے گا۔

یہی شان نزول جناب ابن عباس اور اکثر اہل تفسیر نے ذکر کی ہے(۲)اور مشہور مفسر، فخر رازی نے کوثر کے معنی کے بارے میں اگر چہ مفسرین کے اختلاف کا تذکرہ کیا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے واضح الفاظ میں یہ بھی تحریر کیا ہے کہ’’اور تیسرا نظریہ ،یہ ہے کہ کوثر سے مراد آپ ؑ کی اولاد ہے ۔۔۔کیونکہ یہ سورہ اس شخص کے جواب میں نازل ہوا ہے جس نے آپؑ کو بے اولاد ہونے کا طعنہ دیا تھا لہذا اس کے معنی یہ ہیں کہ آپ کو ایسی نسل عطا گئی ہے جو ہمیشہ باقی رہے گی(اسکے بعد کہتے ہیں)چنانچہ آپ خود دیکھ سکتے ہیں کہ اہلبیت ؑ کا کس طرح قتل عام کیا گیا ہے؟پھر بھی دنیا ان سے بھری ہوئی ہے جب کہ بنی امیہ کا کوئی نام لینے والا بھی نہیں ہے نیز آپ یہ بھی دیکھئے کہ ان کے در میان کتنے بڑے بڑے اور اکا بر علماء گذرے ہیں جیسے (امام محمد )باقر(امام جعفر)صادق(امام موسیٰ)کاظم (امام علی)رضا  علیہم السلام اور نفس زکیہ و غیرہ ۔

جس طرح آیۂ مباہلہ دلیل ہے (۳)کہ امام حسن و حسین ؑ رسول اللہ ﷺکے بیٹے ہیں اسی طرح اس بارے میںآنحضرتؐ کی متعددحدیثیں بھی موجود ہیں کہ خداوند عالم نے ہر نبی کی ذریت اسکے صلب میں رکھی ہے اور ختمی مرتبتؐ کی نسل کو حضرت علی ؑ کے صلب میں قرار دیا ہے نیز صحاح میں پیغمبر اکرمؐ کی یہ حدیث نقل کی گئی ہے کہ آپ نے امام حسن ؑ کے بارے میں یہ فرمایاتھا:میرا یہ بیٹا سید و سردار ہے اور اللہ عنقریب اس کے ذریعہ دو بڑے گروہوں میں صلح کرائے۔ (۴)

۲۔فاطمہ زہرا ؑ سورۂ دہر میں


ایک روزامام حسن ؑ اور امام حسین ؑ مریض ہوئے اور رسول اسلام ؐکچھ لوگوں کے ساتھ ان کی عیادت کرنے گئے تو آپؐ نے فرمایا: اے علی ؑ تم اپنے ان دونوں بیٹوں کی شفا کے لئے کچھ نذر کر لو!چنانچہ حضرت علی ؑ و فاطمہؐ اور آپ ؑ کی کنیز فضہ نے یہ نذر کی کہ اگر یہ دونوں شفا یاب ہوگئے تو ہم تین روز ے رکھیں گے چنانچہ دونوں شہزادے بالکل شفا یاب ہوگئے گھر میں کچھ نہیں تھاحضرت علی ؑ ،شمعون یہودی سے تین صاع(سیر) جو ادھار لیکر آئے جن میں سے شہزادی کائنات ؑ نے ایک سیر جو کاآٹا پیس کر اسی کی پانچ روٹیاں بنالیں اور سب لوگ انھیں اپنے سامنے رکھ کر افطار کرنے بیٹھ گئے کہ اسی وقت ایک سائل نے آکر سوال کیا:اے حضرت محمدؐ کے اہلبیت ؑ آپ حضرات کی خدمت میں سلام عرض ہے،میں مسلمان مسکینوں میں سے ایک مسکین ہوں مجھے کھانا عطا فرما دیجئے اللہ تعالی آپ کو جنت کے کھانوں سے سیر وسیراب فرمائے:سب نے ایثار کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی تمام روٹیاں سائل کو دے دیں اور پانی کے علاوہ کچھ نہیں چکھا اور صبح کو پھر روزہ رکھ لیا شام کو جب روزہ کھولنے کے لئے بیٹھے تو ایک یتیم نے آکر سوال کرلیا اور انھوں نے اس یتیم کو اپنا کھانا دیدیا تیسرے دن ایک اسیر آگیا اور اس دن بھی گذشتہ واقعہ پیش آیا صبح کو حضرت علی ؑ امام حسن ؑ اور امام حسین ؑ کا ہاتھ پکڑ کر رسول اکرمؐ کی خدمت میں لے گئے جب ان پر آنحضرتؐ کی نظرپڑی تو دیکھا کہ وہ بھوک کی شدت سے لرز رہے ہیں آپؐ نے فرمایا میرے لئے یہ کتنی تکلیف دہ بات ہے یہ تمہاری کیا حالت ہے؟پھرآپؐ ان کے ساتھ جناب فاطمہؐ کے گھر تشریف لے گئے تو کیا دیکھا کہ شہزادیؑ کائنا ت محراب میں مشغول عبادت ہیں اور ان کاپیٹ کمر سے ملا ہوا ہے اور آنکھیں اندر دھنس چکی تھیں یہ دیکھ کر آپ کو مزید تکلیف ہوئی تب جناب جبرئیل آپ کی خدمت میں نازل ہوئے اور کہا :اے محمدؐ آپ کو مبارک ہو یہ لیجئے خداوند عالم نے آپ کو آپ کے اہل بیت ؑ کے بارے میں مبارکبادپیش کی ہے ،پھر انھوں نے اس سورہ کی تلاوت فرمائی۔(۵)


مختصر یہ کہ شہزادی کائناتؐ ان لوگوں میں شامل ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالی نے یہ گواہی دی ہے کہ آپ ان نیک لوگوں میں سے ہیں جو اس جام شربت سے سیراب ہوں گے جس میں کافور کی آمیزش ہوگی یہی وہ حضرات ہیں جو اپنی نذر کوپوراکرتے ہیں اور اس دن کے شر سے خائف رہتے ہیں جس کا شر ہر ایک کو اپنی لپیٹ میں لے لے گااور یہی وہ حضرات ہیں جو کھا نے کی ضرورت ہونے کے باوجود اپنے اوپر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں چاہے اسکی وجہ سے انھیں دشواریوں کا سامنا ہی کیوں نہ کرنا پڑے اور وہ صرف خدا کی مرضی اور خوشی کے لئے کھانا کھلاتے ہیں اور ان سے کسی قسم کے شکریہ اور بدلہ کے خواہشمند نہیں رہتے یہی وہ حضرات ہیں جنھوں نے خدا کے لئے صبر وتحمل سے کام لیا ہے ۔۔۔ اور انہی کو خداوند عالم اس بد ترین دن کے شر سے محفوظ رکھا ہے ۔۔۔ اور ان کے صبر و تحمل کے انعام میں انہیں جنت و حریر سے نوازا ہے۔(6)

۳۔فاطمہ زہراؑ آیت تطہیرمیں


آیۂ تطہیر رسول خداؐ پر اس وقت نازل ہوئی جب آپ جناب ام سلمہ (س)کے گھر میں تشریف فرما تھے اور آپ نے اپنے دونوں نواسوں حسن ؑ و حسین ؑ اور ان کے والد اور والدۂگرامی کو اپنے پاس بٹھاکر اپنے اور ان کے اوپر ایک چادر ڈال دی تا کہ آپ کی ازواج اور دوسرے لوگ ان سے بالکل علٰیحد ہ ہوجائیں تو یہ آیت نازل ہوئی:

(انما یرید اللّٰہ لیذہب عنکم الرجس اہل البیت و یطہرکم تطہیرا)(۷)

اے اہلبیتؑ اللہ کا ارادہ یہ ہے کہ تم سے رجس اور گندگی کو دور رکھے اور تمہیں اسی طرح پاک رکھے جوپاک وپاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔

یہ حضرات ابھی اسی طرح بیٹھے ہوئے تھے کہ پیغمبرؐ نے اسی پر اکتفا نہیں کی بلکہ چادر سے اپنے ہاتھ باہر نکال کر آسمان کی طرف بلند کئے اور یہ دعا فرمائی:
’’اللہم ہولاء اہل بیتی فاذہب عنہم الرجس و طہرہم تطہیراً ‘‘۔
بارالہٰا! یہ میرے اہلبیت ہیں لہٰذا تو ان سے رجس کو دور رکھنا اور انھیں پاک و پاکیزہ رکھنا۔
آپ باربار یہی دہرا رہے تھے اور جناب ام سلمہ یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی تھیں اور آنحضرتؐکی آواز بھی سن رہی تھیں اسی لئے وہ بھی یہ کہتی ہوئی چادر کی طرف بڑھیں :اے اللہ کے رسول میں بھی آپ حضرات کے ساتھ ہوں؟ تو آپ نے ان کے ہاتھ سے چادر کا گوشہ اپنی طرف کھینچتے ہوئے فرمایا:نہیں تم خیر پر ہو؟(۸)
آیت نازل ہونے کے بعد رسول اسلام ؑ کا مسلسل یہ دستور تھا کہ آپ جب بھی صبح کی نماز پڑھنے کے لئے اپنے گھر سے نکلتے تھے تو شہزادیؑ کائنات کے دروازہ پر آکر یہ فرماتے تھے:
’’الصلاۃ یا اہل البیت انما یرید اللّٰہ لیذھب عنکم الرجس ویطہرکم تطہیراً‘‘
نما ز!اے اہلبیت بیشک اللہ کا ارادہ یہ ہے کہ تم سے ہر رجس اور برائی کو دور رکھے اور تمہیں پاک و پاکیزہ رکھے۔
آپ کی یہ سیرت چھ یاآٹھ مہینے تک جاری رہی۔(۹)
یہ آیت گناہوں سے اہلبیت ؑ کے معصوم ہونے کی بھی دلیل ہے کیونکہ رجس گناہ کو کہا جاتا ہے اور آیت کے شروع میں کلمۂ ’’ انّما ‘‘آیا ہے جو حصرپردلالت کرتا ہے جسکے معنی یہ ہیں کہ ان کے بارے میں اللہ کا بس یہ ارادہ ہے کہ ان سے گناہوں کو دوررکھے اور انہیں پاک وپاکیزہ رکھے اور یہی حقیقی اور واقعی عصمت ہے جیسا کہ نبھانی نے تفسیر طبری سے آیت کے یہی معنی وضاحت کے ساتھ بیان کئے ہیں۔(۱۰)


۴۔مودت زہرا ؑ اجر رسالت


جناب جابر نے روایت کی ہے کہ ایک دیہاتی عرب رسول خدا ؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا اے محمدؐ مجھے مسلمان بنادیجئے آپ نے فرمایا:یہ گواہی دو:

’’لا الہ الاا للّٰہ وحدہ لا شریک لہ وان محمداً عبدہ ورسولہ‘‘۔

’’اللہ کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے ،وہ لا شریک ہے اور محمد اس کے بندہ اور رسول ہیں‘‘۔

اس نے کہا آپ مجھ سے کوئی اجرت طلب کریں گے؟
فرمایا: نہیں صرف قرابتداروں کی محبت ،اس نے کہامیرے قرابتداروں یا آپ کے قرابتداروں کی؟ فرمایا میرے قرابتداروں کی وہ بولا میں آپ کی بیعت کرتا ہوں لہذا جو شخص بھی آپ اورآپ کے قرابتداروں سے محبت نہ کرے اس پر خدا کی لعنت ہو ،آپ نے فرمایا آمین۔(۱۱)
مجاہد نے اس کی یہ تفسیر کی ہے کہ اس مودت سے آپ کی پیروی آپ کی رسالت کی تصدیق اور آپ کے اعزاء سے صلۂ رحم کرنا مراد ہے جب کہ ابن عباس نے اس کی یہ تفسیر کی ہے کہ :آپ کی قرابتداری کا خیال رکھ کر اس کی حفاظت کی جائے ۔(۱۲)
زمخشری نے ذکر کیا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی اسی وقت رسول اللہ ؐ سے یہ سوال کیا گیا:اے اللہ کے رسول آپ کے وہ قرابت دار کون ہیں جن کی محبت ہمارے اوپر واجب کی گئی ہے؟آپ نے فرمایا:علی ؑ فاطمہ سلام اللہ علیہااور ان کے دونوں بیٹے۔(۱۳)

۵۔فاطمہ زہرا ؑ آیۂ مباہلہ میں


تمام اہل قبلہ حتی کہ خوارج کا بھی اس بات پر اجماع و اتفاق ہے کہ نبی اکرم ؐ نے مباہلہ کے لئے عورتوں کی جگہ صرف اپنی پارۂ جگر جناب فاطمہ زہراؐ کو اور بیٹوں میں اپنے دونوں نواسوں امام حسن ؑ اور امام حسین ؑ کو اور نفسوں میں صرف حضرت علی علیہ السلام کو ساتھ لیاجو آپ کے لئے ویسے ہی تھے جیسے موسیٰ کے لئے ہارون اور عیسائیوں سے مباہلہ کرنے کے لئے تشریف لے گئے اور صرف یہی حضرات اس آیت کے مصداق ہیں اور یہ ایک ایسی واضح و آشکار چیز ہے جس کا انکارکسی کے لئے ممکن نہیں ہے اوراس فضیلت میں کوئی بھی آپ حضرات کا شریک نہیں ہے اور جو شخص بھی تاریخ مسلمین کی ورق گردانی کرے گا اسے روز روشن کی طرح 

یہی نظر آئے گا کہ یہ آیت ان ہی سے مخصوص ہے اور ان کے علاوہ کسی اور کے لئے نازل نہیں ہوئی ہے۔(۱۴)

نبی اکرم ؐ ان حضرات کو اپنے ساتھ لے کر عیسائیوں سے مباہلہ کرنے کے لئے تشریف لے گئے اور آپ نے ان پر فتح حاصل کی، اس وقت امہات المومنین (ازواج نبیؐ)سب کی سب اپنے گھروں پر موجود تھیں مگر آپ نے ان میں سے کسی ایک کو بھی نہیں بلایا اور نہ ہی اپنی پھوپھی جناب صفیہ اور اپنی چچازاد بہن جناب ام ہانی کوساتھ لیا اور نہ ہی خلفائے ثلا ثہ کی ازواج یا انصار و مھاجرین کی عورتوں میں سے کسی کو اپنے ساتھ لے گئے۔

اسی طرح آپ نے جوانان جنت کے دونوں سرداروںیعنی (امام حسن اور امام حسین ؑ )کے ساتھ بنی ہاشم یاصحابہ کے کسی بچہ اور جوان کو نہیں بلایا اور نہ ہی حضرت علی ؑ کے علاوہ اپنے اعزاء واقرباء اور ابتدائی اور قدیم مسلمانوں اور اصحاب میں سے کسی کو دعوت دی اورجب ان چاروں حضرات کولے کر آپ باہر نکلے تو آپ کالے بالوں والی چادر اوڑھے ہوئے تھے جیسا کہ امام فخر رازی نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے کہ امام حسین ؑ آپ کی آغوش میں اور امام حسن ؑ آپ کی انگلی پکڑے ہوئے تھے جناب فاطمہؐ آپ کے پیچھے اور ان کے بعد حضرت علی ؑ چلے آرہے تھے اور آنحضرتؐ ان سے یہ فرما رہے تھے : جب میں دعا کروں توتم لوگ آمین کہنا، اُدھر اسقف نجران نے کہا:اے میرے عیسائی بھائیو!:میں ان چہروں کو دیکھ رہا ہوں کہ اگر یہ خدا سے پہاڑ کو اس کی جگہ سے ہٹانے کی دعا کردیں تو وہ اسے وہاں سے ،ہٹادے گا لہذا ان سے مباہلہ نہ کرنا ورنہ مارے جاؤگے اور قیامت تک روئے زمین پر کسی عیسائی کا نام ونشان باقی نہیں رہ جائے گا۔(۱۵)
فخر رازی اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں:یہ آیت دلیل ہے کہ حسنؑ اور حسینؑ رسول اللہ ؐ کے فرزندہیں کیونکہ آپ نے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ اپنے بیٹوں کولے کر آئیں گے اور آپ حسن و حسین ؑ کو ساتھ لائے تھے لہذا ان دونوں کا فرزند رسولؐہونا بالکل طے شدہ بات ہے۔(۱۶)


شہزادئ کائنات سلام اللہ علیہا سید المرسلین ؐکی نگاہ میں!


رسول اکرم ؐ نے فرمایا ہے:

( أن اللّہ لیغضب لغضب فاطمۃ ، و یرضی لرضاھا )

بیشک اللہ تعالی فاطمہؐ کی ناراضگی سے ناراض اور ان کے خوش ہوجانے سے راضی ہوجاتا ہے۔ (۱۷)

(فاطمۃ بضعۃ منی ؛ من آذاھا فقد آذانی ، و من أحبھا فقد أحبنی)
فاطمہ میرا ٹکڑا ہے جس نے اسے تکلیف پہنچائی اس نے مجھے تکلیف دی ہے اور جس نے اس سے محبت رکھی اس نے مجھ سے محبت رکھی ہے۔(۱۸)
(فاطمۃ قلبی و روحی التی بین جنبی)فاطمہ میرا دل اور میرے دونوں پہلووں کے در میان موجود میری روح ہے۔(۱۹)
(فاطمہ سیدہ نساء العالمین)فاطمہ عالمین کی عورتوں کی سردار ہیں۔(۲۰)
اس قسم کی شہادتیں کتب حدیث وسیرت میں رسول اکرم ؐ سے کثرت کے ساتھ مروی ہیں اورجو اپنی خواہش سے کوئی کلام ہی نہیں کرتے تھے نیز رشتہ داری یا دوسرے وجوہات سے بالکل متاثر نہیں ہوتے تھے اور خدا کی راہ میں آپ کو کسی بھی ملامت کرنے والے کی ملامت کی کوئی پروانہیں تھی۔
رسول اکرم ؐنے اپنے کو اسلام کی تبلیغ کے لئے بالکل وقف کر رکھا تھا اور آپ کی سیرت تمام لوگوں کے لئے
نمونہ عمل تھی،مختصر یہ کہ آپ کے دل کی دھڑکن،آنکھوں کی جنبش، ہاتھ پیر کی نقل و حرکت اور آپ کے افکار کی شعاعیں قول،فعل اور تقریر(یعنی آپ کی سنت)بلکہ آپ کا پورا وجود ہی دین کی علامت ،شریعت کا سر چشمہ، ہدایت کا چراغ اور نجات کا وسیلہ بن گیا۔
جتنا زمانہ گذرتا جارہا ہے اور اسلامی سماج جتنی ترقی کر رہا ہے اتنا ہی ان سے ہماری محبتوں میں اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے یا جب بھی ہم آنحضرت کے کلام میں اسلام کے اس بنیادی نکتہ کو دیکھتے ہیں کہ آنحضرتؐ نے ان سے یہ فرمایا تھا : ’’یا فاطمۃ اعملی لنفسک فانّی لا اغنی عنک من اللّہ شیئاً‘اے فاطمہؑ اپنے لئے عمل کرو کیونکہ میں خدا کی طرف سے تمہارے لئے کسی چیز کا ذمہ دار نہیں بن سکتا ہوں(۲۱) (یعنی ہر شخص اپنے عمل کا خود ذمہ دار ہے)۔
آپ ؐ نے فرمایا :(کمل من الرجال کثیر ، و لم یکمل من النساء إلا مریم بنت عمران ، و آسیۃ بنت مزاحم امرأۃ فرعون ، و خدیجۃ بنت خویلد و فاطمۃ بنت محمد ﷺ)
کامل مردتو بہت سارے ہیں مگر کامل عورتیں مریم بنت عمران ،فرعون کی زوجہ آسیہ بنت مزاحم، خدیجہ بنت خویلد اور فاطمہ بنت محمد ؐ کے علاوہ کوئی نہیں ہے۔(۲۲)
نیز آپ ؐنے فرمایا :
(إنما فاطمۃ شجنۃ منی ، یقبضنی ما یقبضھا ، و یبسطنی ما یبسطھا ۔ و إن الأنساب یوم القیامۃ تنقطع غیر نسبی و سببی و صھری ...)
فاطمہ میری ایک شاخ ہے اور جو چیز اسے خوش کرتی ہے اسی سے مجھے بھی خوشی ہوتی ہے(۲۳) اور قیامت کے دن میرے نسب وسبب اور دامادی کے علاوہ تمام نسب ایک دوسرے سے الگ ہوجائیں گے۔(۲۴)
ایک دن پیغمبر اسلام ؐ جناب فاطمہؐ کا ہاتھ پکڑے ہوئے نکلے اور آپ ؐ نے فرمایا:(من عرف ھذہ فقد عرفھا ، و من لم یعرفھا فھی فاطمۃ بنت محمد ، و ھی بضعۃ منی ، و ھی قلبی الذی بین جنبی ؛ فمن آذاھا فقد آذانی ، و من آذانی فقد آذی اﷲ )
جو اسے جانتا ہے وہ تو اسے جانتا ہی ہے اور جو نہیں جانتا وہ اسے پہچان لے کہ یہ فاطمہ بنت محمد ہے اور یہ میرا ٹکڑا ہے اور یہ میرے دونوں پہلووں کے در میان دھڑکنے والا میرا دل ہے لہذا جس نے اسے ستایا اس نے مجھے تکلیف دی اور جس نے مجھے تکلیف پہنچائی اس نے اللہ کو تکلیف دی ہے۔ (۲۵)
نیز فرمایا: (فاطمۃ أعز البریّتۃ علیّ)
فاطمہ ؐ تمام مخلوقات میں مجھے سب سے زیادہ عزیز ہیں۔(۲۶)
آپ کی عصمت کی طرف موجود ان اشاروں کے بعد ہمارے لئے ان احادیث کی تفسیر کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے بلکہ یہ احادیث توآپ ؐ کی عصمت کے ساتھ اس بات کی شاہد ہیں کہ آپ صرف خدا کے لئے ناراض ہوتی ہیں اور خدا کے لئے راضی اور خوش ہوتی ہیں۔

حوالہ جات
۱۔ یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب پیغمبرؐ کے فرزند عبد اللہ کہ جو خدیجہ کے بطن سے تھے ان کا انتقال ہو گیا تھا اور پیغمبرؐ کی اولاد ذکور میں سے کوئی باقی نہیں بچا تھا۔
۲۔ تفسیر کبیر ،ج۳۲،ص۱۳۲۔
۳۔تاریخ بغداد : ج ۱ ،ص ۳۱۶ ، ریاض النضرہ : ج۲ ، ص ۱۶۸ ، کنز العمال: ج ۱۱ ح ،۳۲۸۹۲۔
۴۔صحیح بخاری : کتاب صلح ، صحیح تر مذی : ج ۵ ، ح ۳۷۷۳ ،ط احیاء تراث ،مسند احمد : ج۵ ، ص ۴۴ تاریخ بغداد: ج۳ ، ص ۲۱۵ ، کنز العمال: ج ۱۲ ،۱۳ احادیث ۳۴۳۰۴،۳۴۳۰۱ ، ۳۷۶۵۴۔
۵۔سورۂ دہر یا ھل اتیٰ یا انسان۔
۶۔ملاحظہ فرمایئے :کشاف مولفہ زمخشری ،تفسیر کبیر مولفہ ثعلبی ،اسد الغابہ ج۵ ص۵۳۰اور تفسیر فخر رازی۔
۷۔سورۂ احزاب ۳۳۔ 
۸۔ صحیح مسلم :کتاب فضائل صحابہ ومستدرک صحیحین،۳؍۱۴۷،الدر المنثور،ذیل تفسیر آیۂ تطہیر،تفسیر طبری۲۲؍۵،صحیح ترمذی ۵ حدیث۳۷۸۷،مسند احمد ۶؍۲۹۲و۳۰۴،اسد الغابہ ۴؍۲۹،تہذیب التہذیب۲؍۲۵۸۔
۹۔الکلمۃ الغراء فی تفضیل الزہراص۲۰۰،علامہ سید عبدالحسین شرف الدین فرماتے ہیں:اسے امام احمد نے اپنی صحیح کی ج۳ ص ۲۵۹ ،پر اور حاکم نے بھی نقل کیا ہے نیز اسے ترمذی نے صحیح اور ابن ابی شبیہ،ابن حریر،ابن منذر ،ابن مردویہ اور طبرانی و غیرہ نے ((حسن))قرار دیا ہے ۔ 
۱۰۔الکلمۃ الغراء فی تفضیل الزہرا،ص ۱۰۰۔ 
۱۱۔حلیۃ الاولیاء:ج۳، ص۲۰۱، تفسیر الطبری: ج۲۵،ص ۲۵ ۔۱۶۔ ۱۷ ، تفسیر المنثور سورۂ شوریٰ کی تیسری آیۃ کی تفسیر ، الصوائق المحرقۃ: ۲۶۱و اسد الغایۃ :ج۵،ص۳۶۷۔ 
۱۲۔فضائل الخمسہ بن الصحاح الستہ ج۱ ص۳۰۷۔
۱۳۔الکشاف فی تفسیرا الآیہ ، و تفسیر الکبیر : فخر رازی ، اور الدر المنثور : اور ذخائرلعقبی :۳۵ ٰ الغدیر :ج ۳ ۔علامہ امینی نے اس آیت کے شان نزول کے بارے میں کہ یہ اہل بیت علیہم السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے ۴۵ ماخذ ذکر کئے ہیں۔
۱۴۔الکلمۃ الغراء فی تفضیل الزہرا:ا۸ا۔ 
۱۵۔علامہ سید عبد الحسین شرف الدین کہتے ہیں:اس واقعہ کو تمام محدثین اور مورخین نے دسویں ہجری کے واقعات کی تفسیر کے ذیل میں تحریر کیا ہے اور یہی مباہلہ کا سال ہے اسی طرح ملاحظہ کیجئے صحیح مسلم کتاب فضائل صحابہ ،کشاف زمخشری سورۂ آل عمران کی ۶۱ ویں آیت ۔
 ۱۶۔تفسیر الکبیر : آیۃ کی تفسیر کے ذیل میں، الصواعق المحرقہ : ۲۳۸۔
۱۷۔ کنز العمال :ج ۱۲، ص ۱۱۱، مستدرک صحیحین :ج ۳، ص ۱۵۴ ، میزان الاعتدال :ج ۱،ص۵۳۵۔ 
۱۸۔صواعق المحرقۃ : ۲۸۹، الامامۃ والسیاسۃ :ص ۳۱ ،کنز العمال : ج۱۲ ، ص۱۱۱، خصائص النسائی: ۳۵ ، صحیح مسلم : کتاب فضائل الصحابۃ۔
۱۹۔ فرائد السمطین :ج۲ ،ص۶۶۔
۲۰۔المستدرک صحیحین : ج۳ ،ص۱۷۰، وابو نعیم فی حلیۃ الاولیاء : ج۲،ص ۳۹،والطحاوی فی مشکل الآثار : ج ۱ ،ص ۴۸ ،وشرح نہج البلاغہ لابن ابی الحدید : ج۹ ،ص ۱۹۳ ، والعوالم :ج۱۱ ،ص ۱۴۱۔ ۱۴۶۔
۲۱۔فاطمہ الزہراء وتر فی غمد: مقدمہ از قلم سید موسیٰ صدر۔
۲۲۔رواہ صاحب الفصول المہمہ ۲۷، تفسیر الوصول :ج۲ ،ص۱۵۹ ، شرح ثلاثیات مسند احمد :ج ۲ ،ص ۵۱۱ ۔
۲۳۔الشجنۃ : اشعبۃ من کل شیء اشجنھہ کالغصن یکون من الشجرۃ . مستدرک الحاکم :ج۳ ،ص ۱۵۴ ، کنز العمال :ج ۱۲، ص ۱۱۱ ح ، ۳۴۲۴۰ ۔
۲۴۔مسند احمد : ج۴، ص ۳۲۳ ۔ ۳۳۲ ، والمستدرک :ج ۳ ،ص ۱۵۴ ۔۱۵۹۔
۲۵۔فصول المہمہ : ۱۴۴ ، و رواہ فی کتاب المختصر عن تفسیر الثعلبی :۱۲۳۔
۲۶۔امالی الطوسی : مجلس ۱ ح ۳۰ ،والمختصر :۱۳۶۔


ماخذ: منارہ ہدایت ج ۳

No comments:

Post a Comment

Post Your Comments