عورت جناب زہراء (س) كى نظر ميں
|
على ابن ابى طالب (ع) فرماتے ہيں كہ ميں ايك دن ايك جماعت كے ساتھ جناب رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كى خدمت ميں بيٹھا ہوا تھا آپ نے اپنے اصحاب سے فرمايا كہ عورت كى مصلحت كس ميں ہے؟ آپ كو كوئي صحيح جواب نہ دے سكا، جب اصحاب چلے گئے اور ميں بھى گھر گيا تو ميں نے پيغمبر(ص) كے سوال كو جناب فاطمہ (س) كے سامنے پيش كيا_ جناب فاطمہ (س) نے فرمايا كہ ميں اس كا جواب جانتى ہوں، عورت كى مصلحت اس ميں ہے كہ وہ اجنبى مرد كو نہ ديكھے اور اسے اجنبى مرد نہ ديكھے_ ميں جب جناب رسول خدا صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كى خدمت ميں حاضر ہوا تو ميں نے عرض كى كہ آپ كے سوال كے جواب ميں جناب فاطمہ (س) نے يہ فرمايا ہے_ پيغمبر(ص) نے آپ كے اس جواب سے تعجب كيا اور فرمايا كہ فاطمہ (س) ميرے جسم كا ٹكڑا ہے(2)_
اس ميں كوئي شك نہيں كہ دين مقدس اسلام نے عورتوں كى ترقى اور پيشرفت كے لئے بلند قدم اٹھائے ہيں اور ان كے حقوق كو پورا كرنے كے لئے ان كے لئے عادلانہ قوانين اور احكام وضع كئے ہيں، اسلام نے عورت كو علم حاصل كرنے كى آزادى دے ركھى ہے اس كے مال اور كام كا محترم قرار ديا ہے، اجتماعى قوانين وضع كرتے وقت عورتوں كے واقعى منافع اورمصالح كى پورى طرح مراعات كى ہے_
ليكن يہ بات قابل بحث ہے كہ آيا عورت كى مصلحت اجتماع اورمعاشرے ميں اجنبى مردوں كے ساتھ مخلوط رہنے ميں ہے يا عورت كى مصلحت اس ميں ہے كہ وہ بھى مردوں كى طرح عمومى مجالس اورمحافل ميں بيگانوں كے ساتھ گھل مل كر پھرتى رہے؟ كيا يہ مطلب واقعاً عورتوں كے فائدے ميں ہے كہ وہ زينت كر كے بغير كسى بند و بار كے مردوں كى مجالس ميں شريك ہو اور اپنے آپ كو انظار عمومى ميں قرار دے؟ كيا يہ عورتوں كے لئے مصلحت ہے كہ وہ بيگانوں كے لئے آنكھ مچولى كرنے كا موقع فراہم كرنے اور مردوں كے لئے امكانات فراہم كرے كہ وہ اس سے ديدنى لذت اورمفت كى لذت حاصل كرتے رہيں؟ كيا يہ عورتوں كى منفعت ميں ہے كہ كسى پابندى كو اپنے لئے جائز قرار نہ ديں اور پورى طرح اجنبى مردوں كے ساتھ گھل مل كر رہيں اور آزادانہ طور سے ايك دوسرے كو ديكھيں؟ كيا عورتوں كى مصلحت اسى ميں ہے كہ وہ گھر سے اس طرح نكلے كہ اس كاتعاقب اجنبى لوگوں كى نگاہيں كر رہى ہوں_
يا نہ بلكہ عورتوں كى مصلحت معاشرے ميں اس ميں ہے كہ اپنے آپ كو مستور كر كے سادہ طريقے سے گھر سے باہر آئيں اور اجنبى مردوں كے لئے زينت ظاہر نہ كريں نہ خود بيگانوں كوديكھيں اور نہ كوئي بيگانہ انہيں ديكھے_
آيا پہلى كيفيت ميں تمام عورتوں كى مصلحت ہے اور وہ ان كے منافع كو بہتر طور پرمحفوظ كرسكتى ہے يا دوسرى كيفيت ميں؟ آيا پہلى كيفيت عورتوں كى روح اور ترقى اور پيشرفت كے بہتر اسباب فراہم كرسكتى ہے يا دوسرى كيفيت ؟ پيغمبر اسلام(ص) نے اس مہم اوراجتماع اور معاشرے كے اساسى مسئلہ كواپنے اصحاب كے افكار عمومى كے سامنے پيش كيااور ان كى اس ميں رائے طلب كى ليكن اصحاب ميں سے كوئي بھى اس كا پسنديدہ جواب نہ دے سكا، جواب اس كى اطلاع حضرت زہراء (س) كو ئي تو آپ نے اس مشكل موضوع ميں اس طرح اپنا نظريہ بيان كيا كہ عورتوں كى معاشرے ميں مصلحت اس ميں ہے كہ نہ وہ اجنبى مردوں كو ديكھيں اور نہ اجنبى مرد انہيں ديكھيں_ وہ زہراء (س) جو وحى اور ولايت كے گھر ميں تربيت پاچكى تھى اس كا اتنا ٹھوس اور قيمتى جواب ديا اوراجتماعى موضوع ميں سے ايك حساس اور مہم موضوع ميں اپنے نظريئے اورعقيدے كااظہار كيا كہ جس سے رسول اكرم صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے تعجب كيا اور فرمايا كہ فاطمہ (س) ميرے جسم كاٹكڑا ہے_
اگر انسان اپنے ناپختہ احساسات كو دور ركھ كر غير جانبدارانہ اس مسئلے ميں سوچے اور اس كے نتائج اور عواقب پر خوب غور اور فكر كرے تو اس بات كى تصديق كرے گا كہ جو جواب جناب فاطمہ (س) نے ديا ہے وہ بہترين دستورالعمل ہوسكتا ہے جو عورتوں كے منافع كا ضامن ہو_ اور اس كے مقام اور رتبے كو معاشرے ميں محفوظ كردے گا كيونكہ اگر عورتيں گھر سے اس طرح نكليں اور اجنبيوں كے ساتھ اس طرح ميل جول ركھيں كہ مرد ان سے ہر قسم كى تمتعات حاصل كرسكيں اور عورتيں ہر جگہ مردوں كے لئے آنكھ مچولى كے اسباب فراہم كريں تو پھر جوان دير سے شادى كريں گے اور وہ زندگى اور ازدواج كے زيربار نہيں ہوں گے، ہر روز لڑكيوں اور عورتوں كى تعداد ميں جو بے شوہر ہوں گى اضافہ ہوتا جائے گا اور يہ علاوہ ازين كہ معاشرے كے لئے مضر ہے اور ماں، باپ كے لئے مشكلات اور محذورات كا موجب ہے خود عام عورتوں كے اجتماع كے لئے بھى موجب ضرر ہوگا، اور اگرعورتيں اپنى خوبصورتى كو تمام نگاہوں كے لئے عام قرار دے ديں اور اجنبيوں ميں دلربائي كرتى رہيں تو ايك بہت بڑے گروہ كا دل اپنے ساتھ لئے پھريں گى اور چونكہ مرد محروميت سے دوچار ہوں گے اوران تك دست رسى اور وصال بغير قيد اور شرط كے حاصل نہ كرسگيں گے قہراً ان ميں نفسياتى بيمارياں اور ضعف اعصاب اورخودكشى اور زندگى سے مايوسى عام ہوجائے گي_
اس كا نتيجہ بلاواسطہ خود عورتوں كى طرف لوٹے گا، يہى عام لطف نگاہ ہے كہ بعض مرد مختلف قسم كے حيلے اور فريب كرتے ہيں اورمعصوم اور سادہ لوح لڑكيوں كو دھوكا ديتے ہيں اور ان كى عفت و آبرو كے سرمايہ كو برباد كرديتے ہيں اور انہيں فساد اور بدبختى اورتباہى كى وادى ميں ڈھكيل ديتے ہيں_
جب شوہردار عورت ديكھے كہ اس كا شوہر دوسرى عورتوں كے ساتھ آتا جاتا ہے، اورعمومى مجالس اورمحافل ميں ان سے ارتباط ركھتا ہے توغالباً عورت كى غيرت كى حس اسے اكساتى ہے كہ اس ميں بدگمانى اور سو ظن پيدا
ہوجائے اور وہ بات بات پراعتراض شروع كردے، بے جہت باصفا اور گرم زندگى كو سرد اور متزلزل بنا كر ركھ دے گى اور نتيجہ،جدائي اور طلاق كى صورت بس ظاہر ہوگا يا اسى ناگوار حالت ميں گھر كے سخت قيدخانے ميں زندگى گزارتے رہے گى اور قيد خانے كى مدت كے خاتمہ كا انتظار كرنے ميں زندگى كے دن شمار كرتى رہے گى اورمياں، بيوى دو سپاہيوں كى طرح ايك دوسرے كى مراقبت ميں لگے رہيں گے_
اگر مرد اجنبى عورتوں كو آزاد نہ ديكھ سكتا ہو تو قہراً ان ميں ايسى عورتيں ديكھ لے گا جو اس كى بيوى سے خوبصورت اور جاذب نظر ہوں گى اور بسا اوقات زبان كے زخم اورسرزنش سے اپنى بيوى كے لئے ناراحتى كے اسباب فراہم كرے گا اور مختلف اعتراضات اور بہانوں سے باصفا اور گرم زندگى كوجلانے والى جہنم ميں تبديل كردے گا_
جس مرد كوآزاد فكرى سے كسب و كار اور اقتصادى فعاليت ميںمشغول ہونا چاہيئے،جب آنے جانے ميں يا كام كى جگہ نيم عرباں اور آرائشے كى ہوئي عورتوں سے ملے گا تو قہراً غريزہ جنسى سے مغلوب ہوجائے گا اور اپنے دل كو كسى دل رباء كے سپرد كردے گا، ايسا آدمى كبھى آزاد فكرى سب كسب و كار ميں يا تحصيل علم ميں مشغول نہيں ہوسكتا اور اقتصادى فعاليت ميں پيچھے رہ جائے گا اس قسم كے ضرر ميں خود عورتيں بھى شريك ہوں گي_ اور يہ ضرر ان پر بھى وارد ہوگا_
اگر عورت پردہ نشين ہو تو وہ اپنى قدر اور قيمت كو بہتر مرد كے دل ميں جاگزين كرسكتى ہے اور عورتوں كے عمومى منافع كو معاشرے ميں حفظ كرسكتى ہے اور اجتماعى كے نفع كے لئے قدم اٹھاسكتى ہے_
اس ميں كوئي شك نہيں كہ دين مقدس اسلام نے عورتوں كى ترقى اور پيشرفت كے لئے بلند قدم اٹھائے ہيں اور ان كے حقوق كو پورا كرنے كے لئے ان كے لئے عادلانہ قوانين اور احكام وضع كئے ہيں، اسلام نے عورت كو علم حاصل كرنے كى آزادى دے ركھى ہے اس كے مال اور كام كا محترم قرار ديا ہے، اجتماعى قوانين وضع كرتے وقت عورتوں كے واقعى منافع اورمصالح كى پورى طرح مراعات كى ہے_
ليكن يہ بات قابل بحث ہے كہ آيا عورت كى مصلحت اجتماع اورمعاشرے ميں اجنبى مردوں كے ساتھ مخلوط رہنے ميں ہے يا عورت كى مصلحت اس ميں ہے كہ وہ بھى مردوں كى طرح عمومى مجالس اورمحافل ميں بيگانوں كے ساتھ گھل مل كر پھرتى رہے؟ كيا يہ مطلب واقعاً عورتوں كے فائدے ميں ہے كہ وہ زينت كر كے بغير كسى بند و بار كے مردوں كى مجالس ميں شريك ہو اور اپنے آپ كو انظار عمومى ميں قرار دے؟ كيا يہ عورتوں كے لئے مصلحت ہے كہ وہ بيگانوں كے لئے آنكھ مچولى كرنے كا موقع فراہم كرنے اور مردوں كے لئے امكانات فراہم كرے كہ وہ اس سے ديدنى لذت اورمفت كى لذت حاصل كرتے رہيں؟ كيا يہ عورتوں كى منفعت ميں ہے كہ كسى پابندى كو اپنے لئے جائز قرار نہ ديں اور پورى طرح اجنبى مردوں كے ساتھ گھل مل كر رہيں اور آزادانہ طور سے ايك دوسرے كو ديكھيں؟ كيا عورتوں كى مصلحت اسى ميں ہے كہ وہ گھر سے اس طرح نكلے كہ اس كاتعاقب اجنبى لوگوں كى نگاہيں كر رہى ہوں_
يا نہ بلكہ عورتوں كى مصلحت معاشرے ميں اس ميں ہے كہ اپنے آپ كو مستور كر كے سادہ طريقے سے گھر سے باہر آئيں اور اجنبى مردوں كے لئے زينت ظاہر نہ كريں نہ خود بيگانوں كوديكھيں اور نہ كوئي بيگانہ انہيں ديكھے_
آيا پہلى كيفيت ميں تمام عورتوں كى مصلحت ہے اور وہ ان كے منافع كو بہتر طور پرمحفوظ كرسكتى ہے يا دوسرى كيفيت ميں؟ آيا پہلى كيفيت عورتوں كى روح اور ترقى اور پيشرفت كے بہتر اسباب فراہم كرسكتى ہے يا دوسرى كيفيت ؟ پيغمبر اسلام(ص) نے اس مہم اوراجتماع اور معاشرے كے اساسى مسئلہ كواپنے اصحاب كے افكار عمومى كے سامنے پيش كيااور ان كى اس ميں رائے طلب كى ليكن اصحاب ميں سے كوئي بھى اس كا پسنديدہ جواب نہ دے سكا، جواب اس كى اطلاع حضرت زہراء (س) كو ئي تو آپ نے اس مشكل موضوع ميں اس طرح اپنا نظريہ بيان كيا كہ عورتوں كى معاشرے ميں مصلحت اس ميں ہے كہ نہ وہ اجنبى مردوں كو ديكھيں اور نہ اجنبى مرد انہيں ديكھيں_ وہ زہراء (س) جو وحى اور ولايت كے گھر ميں تربيت پاچكى تھى اس كا اتنا ٹھوس اور قيمتى جواب ديا اوراجتماعى موضوع ميں سے ايك حساس اور مہم موضوع ميں اپنے نظريئے اورعقيدے كااظہار كيا كہ جس سے رسول اكرم صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے تعجب كيا اور فرمايا كہ فاطمہ (س) ميرے جسم كاٹكڑا ہے_
اگر انسان اپنے ناپختہ احساسات كو دور ركھ كر غير جانبدارانہ اس مسئلے ميں سوچے اور اس كے نتائج اور عواقب پر خوب غور اور فكر كرے تو اس بات كى تصديق كرے گا كہ جو جواب جناب فاطمہ (س) نے ديا ہے وہ بہترين دستورالعمل ہوسكتا ہے جو عورتوں كے منافع كا ضامن ہو_ اور اس كے مقام اور رتبے كو معاشرے ميں محفوظ كردے گا كيونكہ اگر عورتيں گھر سے اس طرح نكليں اور اجنبيوں كے ساتھ اس طرح ميل جول ركھيں كہ مرد ان سے ہر قسم كى تمتعات حاصل كرسكيں اور عورتيں ہر جگہ مردوں كے لئے آنكھ مچولى كے اسباب فراہم كريں تو پھر جوان دير سے شادى كريں گے اور وہ زندگى اور ازدواج كے زيربار نہيں ہوں گے، ہر روز لڑكيوں اور عورتوں كى تعداد ميں جو بے شوہر ہوں گى اضافہ ہوتا جائے گا اور يہ علاوہ ازين كہ معاشرے كے لئے مضر ہے اور ماں، باپ كے لئے مشكلات اور محذورات كا موجب ہے خود عام عورتوں كے اجتماع كے لئے بھى موجب ضرر ہوگا، اور اگرعورتيں اپنى خوبصورتى كو تمام نگاہوں كے لئے عام قرار دے ديں اور اجنبيوں ميں دلربائي كرتى رہيں تو ايك بہت بڑے گروہ كا دل اپنے ساتھ لئے پھريں گى اور چونكہ مرد محروميت سے دوچار ہوں گے اوران تك دست رسى اور وصال بغير قيد اور شرط كے حاصل نہ كرسگيں گے قہراً ان ميں نفسياتى بيمارياں اور ضعف اعصاب اورخودكشى اور زندگى سے مايوسى عام ہوجائے گي_
اس كا نتيجہ بلاواسطہ خود عورتوں كى طرف لوٹے گا، يہى عام لطف نگاہ ہے كہ بعض مرد مختلف قسم كے حيلے اور فريب كرتے ہيں اورمعصوم اور سادہ لوح لڑكيوں كو دھوكا ديتے ہيں اور ان كى عفت و آبرو كے سرمايہ كو برباد كرديتے ہيں اور انہيں فساد اور بدبختى اورتباہى كى وادى ميں ڈھكيل ديتے ہيں_
جب شوہردار عورت ديكھے كہ اس كا شوہر دوسرى عورتوں كے ساتھ آتا جاتا ہے، اورعمومى مجالس اورمحافل ميں ان سے ارتباط ركھتا ہے توغالباً عورت كى غيرت كى حس اسے اكساتى ہے كہ اس ميں بدگمانى اور سو ظن پيدا
ہوجائے اور وہ بات بات پراعتراض شروع كردے، بے جہت باصفا اور گرم زندگى كو سرد اور متزلزل بنا كر ركھ دے گى اور نتيجہ،جدائي اور طلاق كى صورت بس ظاہر ہوگا يا اسى ناگوار حالت ميں گھر كے سخت قيدخانے ميں زندگى گزارتے رہے گى اور قيد خانے كى مدت كے خاتمہ كا انتظار كرنے ميں زندگى كے دن شمار كرتى رہے گى اورمياں، بيوى دو سپاہيوں كى طرح ايك دوسرے كى مراقبت ميں لگے رہيں گے_
اگر مرد اجنبى عورتوں كو آزاد نہ ديكھ سكتا ہو تو قہراً ان ميں ايسى عورتيں ديكھ لے گا جو اس كى بيوى سے خوبصورت اور جاذب نظر ہوں گى اور بسا اوقات زبان كے زخم اورسرزنش سے اپنى بيوى كے لئے ناراحتى كے اسباب فراہم كرے گا اور مختلف اعتراضات اور بہانوں سے باصفا اور گرم زندگى كوجلانے والى جہنم ميں تبديل كردے گا_
جس مرد كوآزاد فكرى سے كسب و كار اور اقتصادى فعاليت ميںمشغول ہونا چاہيئے،جب آنے جانے ميں يا كام كى جگہ نيم عرباں اور آرائشے كى ہوئي عورتوں سے ملے گا تو قہراً غريزہ جنسى سے مغلوب ہوجائے گا اور اپنے دل كو كسى دل رباء كے سپرد كردے گا، ايسا آدمى كبھى آزاد فكرى سب كسب و كار ميں يا تحصيل علم ميں مشغول نہيں ہوسكتا اور اقتصادى فعاليت ميں پيچھے رہ جائے گا اس قسم كے ضرر ميں خود عورتيں بھى شريك ہوں گي_ اور يہ ضرر ان پر بھى وارد ہوگا_
اگر عورت پردہ نشين ہو تو وہ اپنى قدر اور قيمت كو بہتر مرد كے دل ميں جاگزين كرسكتى ہے اور عورتوں كے عمومى منافع كو معاشرے ميں حفظ كرسكتى ہے اور اجتماعى كے نفع كے لئے قدم اٹھاسكتى ہے_
اسلام چونكہ عورت كو اجتماع اور معاشرے كا ايك اہم جز و جانتا
.......
No comments:
Post a Comment
Post Your Comments